بلاگزلائف سٹائل

استنبول یاترا: میری زندگی کا خوشگوار و یادگار سفر

رانی عندلیب

جولائی کا مہینہ شروع ہوتے ہی میرے دل کی دھڑکنیں تیز ہونے لگیں، ایک عجیب سی کفیت طاری ہوئی کیونکہ چند روز بعد میں نے ترکی کے شہر استبول میں ہونے والے ایک بین الاقوامی سیمینار میں شرکت کرنا تھی۔ یہ 8 جولائی کی شام تھی جب میں پشاور سے ترکی کے لیے روانہ ہوئی کیونکہ ہمیں اسلام آباد ائیرپورٹ سے قطر اور وہاں سے استبول جانا تھا۔

گھر سے نکلتے وقت ٹینشن اور خوشی کی ملی جلی کیفیت میں بیان نہیں کر سکتی۔ اسلام آباد ائیرپورٹ پہنچتے ہی ہمارے سامان کی چیکنگ ہوئی اور ہم قطر کی طرف روانہ ہوئے۔ وہاں پہنچتے ہی ہمیں مزید دو گھنٹے انتظار کرنا پڑا جو میرے لیے ایک الگ تجربہ تھا۔ اسلام آباد سے قطر تک کے سفر سے جسم میں ہلکا سا درد محسوس ہو رہا تھا جبکہ دل ہی دل میں یہ خیال آ رہا تھا کہ ابھی تو مزید سفر بھی باقی ہے۔ قطر ائیرپورٹ بہت خوبصورت تھا لیکن مجھے گھر کی یاد آ رہی تھی۔ سوچا کیوں نا بہن بھائیوں سے بات ہو جائے۔ میں نے انٹرنیٹ آن کیا اور پشاور سے قطر تک کی ساری روداد ایک ساتھ بیان کی۔ خیر دو گھنٹے گزر گئے اور ہم نے ایک بار پھر استبول کی طرف سفر شروع کر دیا۔

یہاں جہاز میں میرے ساتھ پشاور اور اسلام آباد کے سینئر صحافی حضرات تھے اور میری خوش قسمتی یہ تھی کہ سبھی پشتو زبان تھے۔ تاہم کسی سے جان پہچان نہ ہونے کی وجہ سے میں نے خاموشی سے سفر کرنے کو ترجیح دی۔ ساڑھے چار گھنٹے کے طویل سفر کے بعد جب میں نے ترکی کی سرزمین پر قدم رکھا تو میری آنکھوں کے سامنے سلطنت عثمانیہ کی وہ تصاویر گھومنے پھرنے لگیں جو کبھی ہم کتابوں اور ڈراموں میں دیکھتے تھے۔

ائیرپورٹ سے باہر آنے کے بعد جب میں نے اپنا نام ایک بڑے بورڈ پر دیکھا تو خوشی سے میری آنکھوں میں آنسو آ گئے اور اپنے مرحوم والدین کو یاد کرتے ہوئے سوچا کہ امی، ابو یہ سب آپ کی دعائیں ہیں کہ آج مجھ جیسی لڑکی ( جو کبھی بازار بھی اکیلے نہیں جا سکتی تھی) اکیلی ترکی پہنچ گئی ہے۔

ائیرپورٹ سے ہوٹل کی طرف روانہ ہوتے ہی جب میں نے ٹائم دیکھا تو پاکستان اور استنبول کے وقت میں دو گھنٹے کا فرق تھا۔ اس ٹائم رات کے ساڑھے آٹھ بج رہے تھے لیکن دھوپ سر پر تھی۔ سوچا کہ گھر میں تو اس وقت رات ہوتی ہے اور یہاں زندگی میں پہلی بار ساڑھے آٹھ بجے دھوپ دیکھنے کو ملی۔

ہوٹل پہنچ کر مجھے سب سے پہلے چائے کی طلب ہوئی کیونکہ ہم پشتون کھانا کھانے سے زیادہ دودھ پتی چائے شوق سے پیتے ہیں لیکن اس وقت مجھے چائے نہیں ملی تو سوچا چلو صبح ہی چائے پی لیتی ہوں لیکن صبح بھی گھر جیسی چائے میسر نہیں ہوئی۔

10 جولائی کو جب میں سیمینار ہال میں داخل ہوئی تو محسوس ہوا کہ یہاں تو سب بہت بڑے اور سینئر صحافی ہیں صرف میں ہی جونئیر تھی۔ ہال میں پاکستانی، انڈین، ازبکستان اور امریکن لوگ موجود تھے تاہم سیمینار پشتو اور انگریزی زبان میں تھا اس لیے مجھے پہلی بار اپنا تعارف کرانے میں مشکل پیش نہیں آئی اور میں نے انتہائی تحمل سے اپنے تعارف کے ساتھ متعلقہ موضوع پر اپنے خیالات کا اظہار کیا۔

سیمینار کے اختتام پر تمام پاکستانی صحافیوں نے استبول کے تاریخی مقامات پر جانے کا ارادہ کیا اور ان کی مہربانی یہ تھی کہ وہ مجھے بھی اپنے ساتھ لے گئے۔ ہم نیلی مسجد اور آیا صوفیا مسجد گئے جو انتہائی خوبصورت مساجد ہیں۔

میں نے ایک بات نوٹ کی کہ استنبول میں اتنی خوبصورت مساجد ہونے کے باوجود وہاں نمازیوں کی تعداد بہت کم تھی۔ تاہم وہاں کا ماحول انتہائی پرسکون اور پرامن تھا۔

آیا صوفیا مسجد کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ کبھی یہاں مسجد کی بجائے ایک چرچ ہوا کرتا تھا تاہم سلطان محمد فاتح نے ترکی فتح کرنے کے بعد اس چرچ کو مسجد میں تبدیل کر دیا اور پھر 1935 میں کمال اتاترک نے اسے میوزیم بنایا جبکہ اب ترکی کے موجود حکمران رجب طیب اردگان کی کوششوں سے وہاں کی عدالت نے آیا صوفیا کو دوبار مسجد کا درجہ دے دیا۔

نیلی مسجد بھی ترکی کے شہر استنبول میں واقع ہے۔ مسجد کی بیرونی دیواروں کے نیلے رنگ کی وجہ سے نیلی مسجد کے طور پر جانا جاتا ہے۔ اس مسجد کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ تعمیر کے وقت یہ واحد مسجد تھی جس کے 6 مینار تھے۔ اس کے علاوہ جاملیحہ مسجد کے بھی چھ مینار ہیں۔

دوسرے روز 11 جولائی کو جب سیمینار ختم ہوا تو میں نے فیصلہ کیا کہ کیوں نا نیلی مسجد کے قریب واقعہ تاریخی گرینڈ بازار کی سیر کی جائے۔ یہ بہت بڑا بازار ہے جہاں سیاح کثیر تعداد میں آئے تھے۔ لوگوں کو خریداری کرتے ہوئے دیکھا تو خواہش جاگ اٹھی کہ اندر جا کر ہم بھی کچھ دیکھ لیں کیا پتہ کوئی چیز پسند آ جائے۔ اندر جا کر میں نے ونڈو شاپنگ کی اور دکانوں میں سجی اشیاء کی قیمیتں اور معیار کا جائزہ لیا۔ ونڈو شاپنگ کا مطلب ایسی شاپنگ جو صرف دیکھنے کی حد تک محدود ہو۔ چیزوں کی قیمتیں مناسب تھیں اور شام 8 بجے بازار بند ہونے لگا۔

 

اگلے روز  12 جولائی کو شام ہم نے ٹیکسیم یا تقسیم اسکوائر کا رخ کر لیا۔ یہ ترکی کا ایک اہم سیاحتی مقام ہے جہاں ہر روز ہزاروں کی تعداد میں ملکی اور غیرملکی سیاح آتے ہیں۔ ہم نے ٹرام کی سواری کی اور موسم کو خوب انجوائے کیا کیونکہ ان دنوں پشاور سے ہمیں شدید گرمی کی خبریں آ رہی تھیں۔

13 جولائی کو میری واپسی تھی لیکن بڑے بزرگوں نے کیا خوب کہا ہے کہ جب کسی انسان کا رزق کہیں پر لکھا ہوتا ہے تو انسان صحیح راستہ بھٹک کر غلط راستے پر نکل جاتا ہے۔ ایسا ہی کچھ میرے ساتھ بھی ہوا۔ اس روز میں بہت خوشی تھی یہ سوچ کر کہ آج وطن واپس جا کر گھر والوں سے ملاقات ہو گی۔ اور سب سے زیادہ خوشی اس بات کی تھی کہ گھر میں ایک کپ چائے میسر ہو جائے گی۔ لیکن اللہ نے جو لکھا ہوتا ہے وہی ہوتا ہے۔ میری واپسی والا دن اس وجہ سے تکلیف دہ تھا کیونکہ میری واپسی جس ائیرپورٹ سے تھی اس کی بجائے گاڑی والے نے مجھے غلط ائیرپورٹ پر ڈراپ کر دیا تھا۔ وہاں پہنچتے ہی مجھے علم ہوا کہ ہمیں غلط ائیرپورٹ پر ڈراپ کیا گیا ہے۔ وہاں سے اپنے ائیرپورٹ تک پہنچنے کے لیے دو گھنٹے مزید سفر کرنا تھا او یوں میری فلائٹ مس ہو گئی۔

میں نے اپنی خاتون مینٹور سے بات کی تو انہوں نے بتایا کہ ہم نے آپ کے گھر والوں کو اطلاع دی ہے، فکر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ آپ کل واپس جا سکتی ہیں۔ فلائٹ مس ہونے پر میں کچھ لمحے کے لیے پریشان تھی تاہم پھر خیال آیا کہ چلو آج کے دن کچھ شاپنگ ہی کر لیتے ہیں۔ وہاں سے میں دوبارہ اپنے ہوٹل کی طرف روانہ ہوئی اور کچھ دیر آرام کرنے کے بعد قریبی بازار گئی اور وہاں اپنی ضرورت کے مطابق کچھ اشیاء وغیر خرید لیں۔

اگلی صبح، 14جولائی، کو جلدی اٹھی اور وقت پر اپنے ائیرپورٹ پہنچ گئی۔ اب میں مطمئن تھی اور یوں قطر میں سٹے کرنے کے بعد جب میں اسلام آباد ائیرپورٹ پر اتری تو صبح کے 4 بج چکے تھے۔ میری فیملی انتظار کرتے کرتے تھک گئی تھی اور جب وہاں ان سے ملاقات ہوئی تو یوں محسوس ہوا کہ مجھے میری زندگی دوبارہ مل گئی۔

یہ میری زندگی کا ایک یادگار اور خوبصورت سفر تھا، اور رہے گا۔

Show More

Salman

سلمان یوسفزئی ایک ملٹی میڈیا جرنلسٹ ہے اور گزشتہ سات سالوں سے پشاور میں قومی اور بین الاقوامی میڈیا اداروں کے ساتھ مختلف موضوعات پر کام کررہے ہیں۔

متعلقہ پوسٹس

Back to top button