بلاگزلائف سٹائل

گیس کے کم پریشر نے گھریلو صارفین کا جینا دو بھر کردیا ہے

 

انیلا نایاب

"اگر کھانا دینا ہے تو بتا دیں ورنہ ہمیں جانے دیں کیونکہ ہم گھر میں اس وقت شام کی چائے پیتے ہیں۔”
گھر میں آئی مہمان نے جب گلہ کیا تو شرمندگی کے ساتھ چہرے پر جعلی مسکراہٹ لاتے ہوئے میں نے کہا آنٹی پتہ نہیں گیس کیوں آج کم ہے۔ پہلے کبھی ایسا نہیں ہوا تھا۔ پڑوسن آنٹی کے سامنے کچہ پکا سالن رکھ دیا۔ یہ کچھ سالوں پہلے کی بات ہے جب ہمارے گھر پہلی مرتبہ گیس کا پریشر کم ہو گیا تھا اور یہ مسئلہ صرف ہمارا نہیں بلکہ پورے محلے کا تھا۔ ہم اس ایک دن کی وجہ سے بہت مشکلات سے دوچار ہوئے لیکن اس وقت ہمیں معلوم نہیں تھا کہ چند سالوں بعد یعنی موجودہ دور میں یہ ایک بہت بڑا سنگین مسئلہ بن جائے گا اور گیس نایاب ہوجائے گی۔

آجکل کی بات کی جائے تو ملک بھر میں گیس کی کمی نے شدت اختیار کر لی ہے۔ ایک دو سال پہلے سردیوں کا موسم شروع ہوتے ہی گیس کی کمی میں اضافہ ہوتا تھا۔ گیس کے پریشر میں کمی کی یہی وجہ سننے کو ملتی ہے کہ سردیوں میں گیس پائپوں میں جم جاتا ہے لیکن اب تو آہستہ آہستہ گیس کی کمی نے اتنی شدت اختیار کر لی ہے کہ گرمی کے موسم میں بھی گیس کی کمی کا سامنا تقریباً تمام شہریوں کو کرنا پڑتا ہے کمی کیا بلکہ گیس برائے نام ہی ہوتی ہے۔

اگر دیکھا جائے تو چند سال پہلے یہ شکایت نہ تھی، عوام گیس کے پریشر کی کمی سے نا واقف تھے۔ تقریباً ہر گھر میں گیس کے گیزر اور خاص طور جنریٹر موجود ہوتے تھے۔
کچھ عرصے سے گیس کے بحران نے عوام کو بے حد پریشان کر دیا ہے اور گھریلو صارفین اس مشکل سے دوچار ہیں. اس مشکل سے نکلنے کے لیے عوام نے کمپریسر(ایک مشین) کا سہارا لیا جس کے استعمال سے گیس پریشر ٹھیک ہوتا ہے لیکن اب اس مشین نے بھی کام کرنے سے گریز کر لیا ہے کیونکہ کمی اتنی شدت اختیار کر چکی ہے کہ وہ کمپریسر اب ایک بے کار پرزا بن چکا ہے.

کہتے ہیں ضرورت ایجاد کی ماں ہے۔ آجکل گیس کی کمی کو پورا کرنے کے لیے ایک غبارہ نماشاپر بازاروں سستے داموں دستیاب ہے یہ غبارہ جو کہ ایک عام سے پلاسٹک کا بنا ہوتا ہے ایک دھماکے سے کم نہیں ہوتا۔

پچھلے دنوں ایک خاتون کو تین بچوں اور شوہر سمیت ہسپتال لایا گیا جو کے جھلس گئے تھے۔ خاتون کے بتانے پر معلوم ہوا کہ گھر پر گیس کا غبارہ لگایا گیا تھا جو کہ گیس سے بھرا ہوا تھا۔ خاتون کے مطابق موبائل فون کا ٹارچ آن تھا اور وہ جب اسی گیس سے بھرے غبارے کے نیچے کھڑی ہوئی تو وہاں زور دار دھماکہ ہوا۔ چند دن وینٹی لیٹر پر گزارنے کے بعد خاتون بچوں سمیت انتقال کرگئی۔

ایسی سہولیات کا کیا فائدہ جس سے انسانی جان محفوظ نہ ہو ہر چیز کا متبادل ہوتا ہے لیکن اس میں وقت لگتا ہے
اب گیس کا بھی کوئی نا کوئی متبادل ضرور ہوگا لیکن اس میں کتنا وقت لگتا ہے یہ معلوم نہیں ہے۔ مگر ہم لوگ سستے داموں موت کو گھر لے آتے ہیں۔

کھانے پینے اور گھر کے ضروری کاموں کے لیے گیس کے متبادل کی اشد ضرورت ہے۔  دیہاتی علاقوں میں پھر بھی اس کمی کو متبادل طریقوں سے پورا کیا جاسکتا ہے لیکن شہری علاقوں میں یہ ایک بہت بڑا مسئلہ ہے جلانے کے لیے نہیں ایندھن ہوتا اور اگر ہو بھی تو اس کو جلانے کے لیے جگہ نہیں ہوتی. عموماً شہری علاقوں میں بنے ہوئے گھر دیہی علاقوں کے مقابلے میں چھوٹے ہوتے ہیں جو بس مکینوں کے رہنے کی ضرورت پوری کرتے ہیں۔ شہر میں گھر بند صحن کے ہوتے ہیں تو کیسے ایندھن جلایا جائے گا اور نا ہی شہری لوگوں کو تجربہ ہے کیونکہ گاوں کی طرح کھلے صحن میں چولہے میں اگ جلا کر ہانڈی روٹی بنانے کے لیے بھی ہنر درکار ہے جو شہری لوگوں کو نہیں آتا۔

حکومت کو چاہیے کہ یا تو گیس کو ٹھیک کریں یا اسکا کوئی متبادل دریافت کریں جو سہولت دینے کے ساتھ ساتھ محفوظ بھی ہو۔
یا اگر کچھ نہیں ہوسکتا تو پھر ایسا کریں کہ حکومت اعلان کریں کہ لوگ گیس کہ سہولت کو بھول جائے تاکہ لوگ اپنا غم خود کریں۔ لیکن نہیں عوام کو ریلیف دینے کی بجائے گیس نا ہونے کے باوجود بھی بھاری بل آتے ہیں اور عوام گیس نا ہونے کے باوجود بھی بل بھرتے ہیں۔ آخر یہ سلسلہ کب تک چلے گا غریب عوام مہنگائی کا رونا روئے یا ایندھن سلینڈر بھرنے کی فکر کریں۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button