وزیرستان کی ڈاکٹر شمائلہ سے اسکی خاموشی نے سب کچھ چھین لیا
بشریٰ محسود
خاموشی جہاں ایک طرف عبادت کا درجہ رکھتی ہے اور ہزارمسائل سے بچاتی ہیں تودوسری طرف ہماری بہت سی خوشیوں کی قاتل بھی ہوتی ہے۔ اکثر اوقات ہماری حد سے زیادہ خاموشی ہی ہمیں بہت نقصان دیتی ہے۔ ایسی ہی ایک خاموش کہانی ڈاکٹر شمائلہ کی ہے جس کا تعلق جنوبی وزیرستان سے ہے۔ ڈاکٹر شمائلہ نے اُس زمانے میں MBBS کیا جب قبائیلی علاقے کے بہت کم لوگ لڑکیوں کے تعلیم کے حق میں تھے۔
میڈیکل کرنے کے بعد اسکی منگنی کردی گئی ایک پڑھے لکھے خاندان میں اور جلد ہی شادی بھی کردی گئی۔
شادی کے کچھ عرصے بعد جب شمائلہ کی سرکاری نوکری لگی ہسپتال میں تو وہ بہت خوش تھی کہ مجھے میرے محنت کا پھل ملنے والا ہے۔ جب اس نے اپنے سسرال والوں کو یہ بات بتائی تو انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا بلکہ خوش ہونے کے بجائے خاموش رہے اور اگلی صبح اس کے شوہر نے بتایا کہ تم شہر میں نہیں رہو گی تم گاؤں والے گھر میں رہو گی لہذا اس نوکری کا خیال دل سے نکال دو۔
اسے برا تو بہت لگا مگر وہ چپ ہو گئی۔ ایک ہفتے بعد جب وہ لوگ گاؤں جا رہے تھے سارے راستے میں یہ سوچ رہی تھی کہ اب میں گاؤں میں اپنے علاقے کے لوگوں کی خدمت کروں گی اور یوں میرا خوب پورا ہو جائے گا۔ گاوں میں اس سے ملنے کافی ساری عورتیں روز آتی تھی اور ملاقات کے ساتھ اپنے مسائل بھی بتاتی اور وہ خوشی خوشی اُن کی رہنمائی کرتی۔ ایک دن ایک بوڑھی عورت نے اس کے شوہر کو کہا کہ اس کو کلینک بنا دو یہ ہم لوگوں کا علاج کریں گی کیونکہ کافی عورتیں بہت خوش ہیں کہ شمائلہ کی لکھی ہوئی دوائیوں کے ساتھ ہم کافی بہتر محسوس کر رہی ہیں۔
اس عورت کے جانے کے بعد جب شمائلہ نے شوہر سے اس بارے میں بات کی اور اپنی خواہش ظاہر کی تو وہ بہت غصہ ہوئے اور اسے صاف صاف منع کر دیا کہ آج کے بعد اس موضوع پر کوئی بات نہیں ہوگی نہیں تو اپنے باپ کے گھر چلی جاؤں پھر جو دل میں آئے وہ کرنا۔
پھر ایک سال تک اسے میکے نہیں جانے دیا گیا یہ کہہ کر یہاں کام کرنے والا کوئی نہیں ہے وہ بھی سب خاموشی سے برداشت کرتی کیونکہ وہ اپنے والدین کو تکلیف نہیں دینا چاہتی تھی اور جب ابو ملنے آتے تو اُسے بھی کچھ نہ بتاتی اور یوں وہ ایک بچے کی ماں بھی بن گئی لیکن حالات بہتر ہونے کے بجائے مزید خراب ہونے لگے۔ اب تو اسے گھر کے باہر کے کاموں کے لیے بھی بھیجا جانے لگا سر پر دور دراز چشموں سے پانی بھر کر لاتی ، پہاڑوں سے سر پر لکڑی لے کر آتی اور گھر کے کام بھی کرتی تھی اور اگر کبھی شمائلہ تھکاوٹ کا کہتی یا اپنی کمزوری کا ذکر کرتی تو شوہر اسے مارنے لگتے کہ تم بہانے بناتی ہو۔ شمائلہ یہ سب اپنے بیٹے موسی کے لیئے برداشت کرتی کہ شاید کبھی میرے شوہر کو مجھ پر رحم آجائے اور میری اور موسیٰ کی زندگی بدل جائے۔
ڈاکٹر شمائلہ کو کام کرتے جب بھی گاؤں کی عورتیں دیکھتی تو بس ایک ہی بات کرتی کہ آفرین ہو تم پر تمھارے والدین پر کیا تربیت کی ہے ایم بی بی ایس ڈاکٹر ہو کر بھی ایک گاؤں والی کی طرح کام کرتی ہو بلکہ ہم سے بھی بہتر کرتی ہو اور یوں وقت گزرتا رہا اوراب تو اس کے میکے والوں کو بھی اس کی حالت کا انداز ہو گیا تھا لیکن وہ بھی مجبور تھے اور اس نے اچھے کل کی امید پہ زندگی کے نو سال اسی طرح گزار دیئے۔ روز گالیاں سنتی ، مار کھائی مگر پھر بھی خاموش رہتی لیکن ایک دن تو شمائلہ کی برداشت بھی ختم ہو گئی جب بھوک لگنے پر اس نے اپنے شوہر سے پہلے کھانا کھا لیا اس پر اسکے شوہر نے اسے بہت مارا اور رات کا وقت تھا اسے گھر سے باہر نکال دیا اور وہ ساری رات باہر دروازے کے ساتھ بیٹھی رہی مگر اُس نے دروازہ نہیں کھولا ۔ کافی لیٹ جب صبح ہونے کو تھی تب اس کی بڑی نند نے دروزاہ کھولا اور ساتھ میں یہ بھی کہا کہ کیوں اپنی زندگی اس ظالم انسان کے ساتھ برباد کر رہی ہو اس کو نشے کے علاوہ کسی کی ضرورت نہیں ہے۔
شمائلہ بھی دل میں فیصلہ کر چکی تھی اور موقع ملتے ہی اس نے اپنے والد کو بلوایا اور اُس کے ساتھ چلی گئی گھر پہنچ کر پیغام بھیجوایا کہ مجھے طلاق چاہیے اب میں واپیس اُس گھر میں نہیں جاؤں گی۔ کافی جرگے ہوئے موسیٰ کو اس سے لے لیا گیا اور آخر کار اسے اُس ناشکرے اور ظالم انسان سے نجات مل گئی۔ یہ کہانی صرف ڈاکٹر شمائلہ یا وزیرستان کے عورتوں کی نہیں ہے بلکہ پنجاب ، سندھ اور بلوچستان میں بھی خواتین صنفی تشدد کاشکار ہے اور اپنے بنیادی حقوق سے محروم ہیں.
اس کی بڑی وجہ ہمارا حق کی بات پر خاموش رہنا ہوتا ہے بد تمیزی نہ صحیح لیکن اگر شمائلہ وقت پر ہی اُسے اپنی اہمیت اپنے حقوق سے آگاہ کر دیتی کہ میں کوئی جانور نہیں ہو یا کوئی بے شعور لڑکی نہیں ہوں بلکہ ایک ڈاکٹر ہوں جو اپنے ساتھ ساتھ معاشرے کے دیگر افراد کے مسائل کو بھی حل کرتی ہے اور واقف ہے ان حقوق سے تو شاید اس کی آج یہ حالت نہ ہوتی۔ مگر اس کی حد سے زیادہ خاموشی برداشت اور صبر نے اُسے مزید ظالم بنا دیا اور انجام بھی وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔ طلاق بھی ہوئی اس کے والدین گھر والے شدت غم و تکلیف کا شکار بھی ہوئے اور موسیٰ بھی ماں کی ممتا سے محروم ہو گیا۔
ڈاکٹر شمائلہ کا کہنا ہے کہ میں اکثر سوچتی ہوں کہ بیسویں اور اکیسویں صدی کے مردوں کی ذہنیت میں بہت فرق ہے تب عورت پاؤں کی جوتی ہی سمجھی جاتی تھی چاہے وہ ڈاکٹر ہوتی استانی ہو یا کوئی دیہاتی عورت، لیکن اب حالات بدل چکے ہیں 52 سال کی عمر میں میری دوسری شادی ہوئی میں تیسری بیوی ہوں لیکن میرے شوہر میرا بہت خیال رکھتے ہیں۔
سب سے پہلے گاوں میں مجھے کلینک بنا کر دیا ۔خود روزانہ مجھے لے کر جاتا ہے کلینک اور میری ساری ضرورتوں کا خیال رکھتا ہے۔ میرے میکے والوں کا بہت زیادہ خیال رکھتا ہے اور یہ سب دیکھ کر مجھے خوشی ہوتی ہے کہ ہمارa آنے والا کل روشن ہے کیونکہ ہماری نئی نسل نہ صرف عورت کی عزت کرتی ہے بلکہ اُس کے جائز و بنیادی حقوق کے لیے بھی بھر پور تعاون کرتے ہیں. ڈاکٹر شمائلہ کی باتیں سُن کر میں سوچ رہی تھی کہ ہماری بہت ساری خوشیاں و کامیابیاں ہم سے چند قدم کے فاصلے پر ہی ہوتی ہیں بس ہمیں صرف ہمت کرنی ہوتی ہے اور بولنا پڑتا ہے۔ اکثر ہماری خوشیوں کی قاتل ہماری اپنی خاموشی ہی ہوتی ہے۔
تبھی تو کہتے ہے کہ بول کہ لب آزاد ہے تیرے