بلاگزلائف سٹائل

"میں مر جاؤں گی لیکن اُس سے شادی نہیں کروں گی”

بشریٰ محسود

 

لفظ شادی کا سنتے ہیں ذہین میں سے ڈھول باجے سمیت لڑکا لڑکی کی پسند ناپسند کا خیال آتا ہے کہ آیا اس خوشی میں لڑکا لڑکی کی خوشی بھی شامل ہو گی یا نہیں، لیکن بدقستمی سے ہر بار ایسا نہیں ہوتا۔ سابقہ فاٹا میں زیادہ تر نوجوان لڑکے اور لڑکیاں اپنے اس بنیادی و اسلامی حق سے محروم ہیں۔ جب انکی شادی ہوتی ہے تو ان سے کوئی نہیں پوچھتا کہ آیا اس شادی میں انکی مرضی شامل ہے کہ نہیں۔ ایسی شادیوں کا انجام بہت بھیانک ہوتا ہے اور اس وجہ سے اب تک کئی لڑکیاں خودکشی بھی کرچکی ہیں۔

چند دن پہلے رقیہ (فرضی نام) کی اچانک موت کی خبر سُن کر میں حیران رہ گئی کیونکہ ایک ہفتہ پہلے ہی اُس کی شادی ہوئی تھی۔ جب بتایا گیا کہ رقیہ کو کرنٹ لگا جسکی وجہ سے اُس کی موت واقع ہوئی ہے تو مجھے یقین نہیں آرہا تھا پھر جب ہماری دوست جو رقیہ کی کزن بھی ہے کو فون گیا تو معلوم ہوا کہ اصل کہانی کچھ اور ہے۔

رقیہ سے جب بھی ہم دوست منگیتر کی تصویر یا اُس کے بارے میں بات کرتے تو وہ فورا غصہ ہو کر بس ایک ہی بات کرتی تھی کہ "میں مر جاؤں گی لیکن اُس سے شادی نہیں کروں گی” جب ہم وجہ پوچھتے تو کہتی تھی کہ بچپن سے ہم ایک گھر میں بہن بھائی جیسے رہے میں اُس سے کیسے شادی کروں؟

وہ کہتی جو مجھے بالکل اپنے بھائی جیسا لگتا ہے میں کیسے اسکی دلہن بن جاوں۔ شادی کوئی مذاق تو نہیں ہے ساری ذندگی کی بات ہے۔ میرے چچا کہتے ہے کہ مجھے رقیہ بہت عزیز ہے اور میں پچپن سے چاہتا تھا کہ یہ میری بہو بنے لیکن میں اس رشتے سے راضی نہیں ہوں اور نہ ہی کسی نے میری مرضی جانی ہے۔ یہ زیر دستی کا رشتہ مجھے نہیں منظور اور پھر وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔ ہم سب اسے سمجھاتے کہ وقت کے ساتھ سب ٹھیک ہو جائے گا لیکن وہ نہ مانتی۔ رقیہ کی شادی زبردستی کروائی گئی اُس کے لاکھ منع کرنے کے باوجود بھی۔

رقیہ کے والد کہتے تھے کہ اب زبان دی ہے بھائی کو انکار نہیں کر سکتا۔ شادی کو ایک ہفتہ ہی گزارہ تھا کہ رقیہ نے خود کو کرنٹ دیں کر خودکشی کر لی اُسے ہسپتال تو لے جایا گیا مگر راستے میں ہیں دم توڑ گئی۔ خاندان والوں نے لوگوں کے باتوں کے ڈر سے یہ کہا کے کرنٹ لگا ہے خود کشی نہیں ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ رقیہ نے خودکشی کی ہے۔  کزن میرج کا اکثر انجام لڑکی کی خودکشی شکل میں سامنے آتا ہے جبکہ مرد کو تو اسلام نے چار نکاح کی اجازت دی ہے وہ دوسری شادی ہے کر لیتا ہے۔

جنوبی وزیرستان میں پہلے لڑکی شادی والے دن پتہ چلتا کہ اسکی شادی ہورہی ہے اور کل بارات ہے۔ پھر وقت بدلتا گیا لوگوں میں مذہبی و دنیاوی تعلیم عام ہوتی گئی اور اب لڑکیوں کو پہلے سے پتہ تو ہوتا ہے کہ انکی شادی کس سے ہوگی لیکن اس میں انکی مرضی شامل ہے یا نہیں اس کا ان سے نہیں پوچھا جاتا۔

وزیرستان کے زیادہ تر علاقوں میں اب بھی پچپن سے رشتے کزنز کے ساتھ طے کر دی جاتی ہے۔ اس میں سر فہرست وزیر قبیلہ ہے، جہاں اب بھی خاندان کے بڑے جو فیصلہ کر لیتے ہیں اُن کے خلاف جانا بغاوت سمجھا جاتا ہے۔ ان کزنز میرج کا نقصان زیادہ تر لڑکیوں کی قسمت میں ہوتا ہے کیونکہ لڑکے دوسری اور تیسری شادی کر لیتے ہیں۔

وزیرستان سے تعلق رکھنے والی گل نازہ بی بی کا کہنا ہے ہمارے وزیر قبیلے میں خاندان میں شادی اور پچپن کے رشتےکا رواج عام ہے۔ میں نے 56 سالہ زندگی میں 7 خود کشی کے واقعات دیکھے ہیں۔ وزیرستان میں بچین کے رشتوں کا رواج عام ہے۔
انہوں نے کہا کہ لڑکیاں تو دور کی بات یہاں لڑکوں سے بھی نہیں پوچھا جاتا، ایک لڑکے کو وہ جانتی تھی گھر والوں نے اسکی شادی زبردستی کروادی تھی بعد میں اس لڑکے نے بھی خودکشی کرلی تھی۔

گل نازہ بی بی کا مزید کہنا تھا کہ اگر اس جبری شادی اور خاندان میں شادی کے رواج کو بدلا نہ گیا  تو مستقبل میں طلاق، خود کشی ، اور ذہنی امراض میں مزید اضافہ ہوگا کیونکہ %40 سے زیادہ خواتین ذہنی امراض کا شکار ہیں۔

ہم سب کو چاہئے کہ مل کر اس کے خلاف آواز اٹھائیں کیونکہ یہ مسئلہ نہ صرف لڑکیوں کا بلکہ لڑکوں کا بھی ہے۔ ہمیں لوگوں میں اب یہ شعور اجاگر کرنا ہوگا کہ شادی دو لوگوں اور پھر خاندانوں کی رضامندی کا نام ہے اس طرح کے رشتے پائیدار اور خوشحال زندگی کی علامت ہوتے ہیں جو مرضی سے کئے جاتے ہیں جبکہ زبردستی کے رشتوں کا انجام برا ہوتا ہے۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button