بلاگزلائف سٹائل

کیا صرف ان پڑھ لوگ دولت کی لالچ میں رشتے کرتے ہیں؟

سندس بہروز                                

اکثر لوگ کہتے ہیں کہ دولت کی لالچ میں رشتے جاہل لوگ کرتے ہیں۔ مجھے بھی ایسا ہی لگتا تھا کہ نا سمجھ اور ان پڑھ لوگ ہی ایسا کرتے ہوں گے مگر کچھ دن پہلے جب میری ملاقات اپنی ڈاکٹر سہیلی سے ہوئی تو میری یہ سوچ بدل گئی۔

میری یہ سہیلی میرے ساتھ کالج میں ہوتی تھی۔ یہ نو بہنیں تھیں۔ اس میں میری دلچسپی کی ایک وجہ اس کا خاندان تھا جو اس بات پر ان سے نالاں تھا کہ اس کے والد بیٹے کے لیے دوسری شادی کیوں نہیں کر لیتے۔ پھر جب اس کے والد نے اپنی بیٹیوں کو بہترین تعلیم دلوانے کے لیے اچھی یونیورسٹیز میں داخل کروایا تو خاندان والوں کو اور بھی تپ چڑھی کہ اخر کیوں یہ بیٹیوں پر پیسہ بہا رہا ہے۔

اب بہت عرصے بعد ملاقات ہوئی تو پتہ چلا کہ چار بہنیں ڈاکٹر بن چکی ہیں۔ تین میڈیکل کی پڑھائی کر رہی ہیں اور دو پری میڈیکل کی۔ باتیں کرتے کرتے رشتوں کا ذکر چھڑا تو معلوم ہوا کہ دو تین کی شادیاں ہو چکی ہیں اور باقیوں کے لیے رشتوں کی تلاش جاری ہے۔

خاندان میں تو رشتے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا تھا کہ دولت کی زعم نے ان کو تعلیم اور شعور کے زیور سے مستفید ہونے ہی نہیں دیا۔ حالانکہ اس کے مطابق خاندان والوں نے ان سے رشتہ جوڑنے کی بہت کوشش کی کیوں کہ ان کا خیال تھا کہ ساری دولت انہی کے پاس چلی جائے گی۔ اس نے مجھے بتایا کہ باہر سے لوگ رشتہ لے کر اتے ہیں، خوب پڑھے لکھے خاندان ہوتے ہیں مگر ہر رشتے کے پیچھے ان کی لالچ چھپی ہوتی ہے۔ اتے ساتھ ہی وہ لڑکی سے ملنے سے پہلے پوچھتے ہیں کہ اپ کے ہاں جہیز کا کیا رواج ہے اور پھر باتوں ہی باتوں میں اپنے ڈیمانڈ سامنے رکھتے ہیں۔ کبھی لڑکے کی پھوپھو اور کبھی اس کی خالہ ہمارے جائیداد کے بارے میں پوچھتی ہے اور پھر یہ بھی کہتی ہے کہ چونکہ ان کا تو کوئی بھائی نہیں تو دولت تو ساری انہی کو ملیں گی۔  اس طرح کے کئی رشتوں سے اس کے والد صاحب انکار کر چکے ہیں۔

افسوس کی بات یہ ہے کہ یہ رشتے ڈاکٹرز اور انجینیئرز کے ہوتے ہیں۔ یعنی اتنے پڑھے لکھے باشعور لوگ بھی دولت کی ہوس سے خالی نہیں۔ کسی ڈاکٹر کو ہسپتال بنانا ہوتا ہے تو اس کی نظر ہسپتال کے لیے زمین کے ساتھ ساتھ ایک ڈاکٹر پر بھی ہوتی ہے۔ اور کوئی انجینیئر زمین کے ساتھ ساتھ جہیز کی لالچ میں رشتے لے کر اتے ہیں۔

یہ رواج ہمارے معاشرے میں بہت عام ہوتا جا رہا ہے۔ بہت ہی قابل اور حسین لڑکیاں صرف اس لیے بابل کے در پر بیٹھی ہوئی ہیں کہ ان کے والد صاحب کا جائیداد نہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ بیٹی کو بہت زیادہ دے دلا نہیں سکتے۔ جتنا ہی ایک خاندان امیر ہوتا ہے اتنا ہی وہ لڑکی سے زیادہ جہیز کی توقع رکھتے ہیں۔ یعنی کہ ہمارے معاشرے میں تعلیم کی شرح بڑھ جانے کے باوجود شعور کی شرح نہیں بڑھی اور تربیت بھی انسان میں وہ خودداری پیدا نہ کر سکی جس کی اج ہمارے معاشرے کو اشد ضرورت ہے۔

چاہے بیٹا نکما نکھٹو ہی کیوں نہ ہو اور چاہے اس کے پاس جائیداد کم ہی کیوں نہ ہو بس لڑکی ان کو اعلیٰ خاندان کی تعلیم یافتہ ہی چاہیے  اور اعلیٰ خاندان کی تعریف جائیداد سے شروع ہوتی ہے۔ اس کے برعکس اگر دیکھا جائے تو حق مہر میں لکھی جانے والی جائیداد سے بھی لڑکی کو محروم رکھا جاتا ہے  مگر اس کے والد کے جائیداد میں اس کے حصے پر گہری نظر رکھی جاتی ہے۔

سندس بہروز انگلش لٹریچر میں ایم فل کر رہی ہے اور سماجی موضوعات پر بلاگز بھی لکھتی ہے۔

 

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button