عید قرباں اور رکشے والا بابا
نوشین فاطمہ
پچھلے دن کی تھکاوٹ کے بعد آج صبح دس بجے نیند سے اٹھ گئی حسب معمول فریش ہوکر اپنا ” ای میل باکس” کھولا تو جس آرگنائزیش کے ساتھ میں کام کر رہی ہوں ان کی طرف سے "ای میل” آیا تھا کہ آپ کے پیسے آپ کے اکاؤنٹ میں ٹرانسفر کر دیئے گئے ہیں۔ یہ دیکھنے کے بعد اپنا بینک اکاؤنٹ چیک کیا تو دل خوشی سے جھوم اٹھا کہ بچوں کے کپڑے، جوتے اور گھر کے اور اخراجات تو پورے ہوگئے ہیں بس یہی فکر تھی کہ اپنی غیر شادی شدہ زندگی سے لے کر ابھی تک کبھی "عید الاضحیٰ” کے موقع پر سنت ابرہیمی نہیں چھوڑی اس بار پیسے نہ ہونے کی وجہ سے لگ رہا تھا کہ شاید اس بار قربانی چھوٹ جائے گی لیکن اللہ بڑا کار ساز ہے عید موقع پر پیسے ملتے ہی یہ مسئلہ بھی حل ہوا اور سنت ابراہیمی ادا کرنے کا فیصلہ کیا۔
دوپہر کھانا کھانے بعد میں اپنے بھتیجے کو ساتھ لے کر جانوروں کی منڈی کی طرف روانہ ہوئی۔ راستے میں رکشہ پکڑا اور منڈی کی طرف روانہ ہوئے. رکشے والا ایک عمر رسیدہ بزرگ تھا۔ شدید گرمی کی وجہ سے ان کا پسینہ مسلسل بہہ رہا تھا. ایک سوشل ورکر ہونے کی حیثیت سے میں جب بھی راستے میں گاڑی میں یا ایسی ہی کسی بھی جگہ پر کسی سے بھی ملتی ہوں تو بات چیت کو آگے بڑھاتی ہوں۔ میرے خیال سے یہ ہر سوشل ورکر کا فریضہ اول ہوتا ہے. اس بزرگ کو بھی مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ بابا ( احتراما)آپ کہاں سے ہیں.
بابا : میں گاؤں کا رہنے والا ہوں
میں: مطلب آپ رکشہ چلانے روز شہر آتے ہیں؟
بابا: نہیں بیٹی میں اسی شہر میں کرائے کے ایک مکان میں رہتا ہوں.
میں: اچھا انکل آپ کے کتنے بچے ہیں؟
بابا: میری ایک بیوی مرگئی جس کی اولاد سے میں محروم تھا ، 26 سال بعد دوسری شادی کی اب اس بیوی کے تین بچے ہیں دو بیٹیاں ہیں جو پڑھ رہی ہے اور ایک دو سال کا بیٹا ہے۔
میں: اف اللہ بخشے آپ کی پہلی بیوی کو، یہ تو بڑا مشکل ہوگا پھر کہ اس عمر میں آپ کو کوئی سہارہ دینے والا نہیں۔
بابا: ہاں بیٹی بس دو وقت کی روٹی کماتے ہیں اسی میں گزارا ہو جاتا ہے باقی اللہ کی دین ہے۔
اس کے بعد ہم دونوں چپ ہوگئے پتہ نہیں کیوں میرے دل میں خیال آیا اور میں نے پوچھ لیا، بچوں کے لئے عید کے کپڑے وغیرہ لئے ہیں یا نہیں جواب آیا کہ نہیں بیٹی مہنگائی بہت زیادہ ہے مشکل سے دو قت کا گزارہ کر لیتے ہیں اوپر سے بچوں کو سکول میں بھی داخل کرایا ہے تو اضافی خرچے برداشت نہیں کر سکتے. اس کے ساتھ جو اس بزرگ نے اپنی تنگ دستی بتائی تو میرا ضمیر اجازت نہیں دے رہا کہ اسے یہاں پر آپ لوگوں کے ساتھ شریک کروں۔
سوال پوچھتے وقت دل ہی دل میں سوچ رہی تھی اگر بچوں کے لئے عید کے کپڑے وغیرہ نہ لئے ہو تو میں اپنی آرگنائزیشن سے رابطہ کرکے اس بابا کے لئے کچھ کر لوں گی اور ایسا ہی ہوا.
میں نے اپنا موبائل پرس سے نکال کر آگے دوستوں کو کال لگائی تو بہت کوششوں کے بعد یہ جواب ملا کے ہمارے پاس جو فنڈز تھے وہ ہم نے تقسیم کئے ہیں اگر ایک دو دن پہلے بتاتی تو ہم کچھ کر پاتے. یہ سنتے ہیں دل میں عجیب سی بے چینی پیدا ہو رہی تھی کہ اب کیا ہوگا؟
میرے پاس جو پیسے تھے اپنے اسے لے کر میں سنت ابراہیمیںی ادا کرنے کے لئے جا رہی تھی لیکن اب دل بے چین تھا بغیر سوچے سمجھے اس رکشے والے کو کہا کہ صدر بازار چلو اور وہ صدر کی طرف روانہ ہوا.
صدر بازار پہنچتے ہی میں نے رکشہ والے بابا سے کہا کہ آپ یہاں انتظار کریں اور میں آتی ہوں شاید ایک گھنٹہ لگ جائے اس کے پیسے بھی میں دے دونگی اور واپسی میں بھی آپ کے ساتھ ہی جانا ہے۔
میں بازار میں گلیوں کے طرف بڑھ گئی اور وہاں پر اس رکشے والے بابا کے دو بیٹیوں کے لئے اور ایک چھوٹے بچے کے لئے تقریباً ایک آدھ گھنٹہ گھوم گھوم کر چن چن کر کپڑے اور جوتے خرید لئے اور وہاں سے پھر رکشہ کی طرف روانہ ہوگئی۔ بابا نے باتوں باتوں میں بتایا کہ گرمی سے بچوں کا برا حال ہے۔ ان پر گرمی دانے نکل آئے ہیں اور ہیضہ بھی کتنی بار لگ چکا ہے۔ میں نے کہا بابا مجھے اچھا سا ائیر کولر بھی لینا ہے وہاں لے جائے پھر وہ بھی خرید لیا۔
میں یہ سمجھ نہیں پا رہی تھی کہ یہ میں کیا کر رہی ہوں لیکن جو کر رہی تھی اس پر کوئی افسوس بھی نہیں ہو رہا تھا کہ میرے پیسے کہاں پر لگنے کے لئے آئے تھے اور کہاں پر لگ رہے ہیں۔
رکشہ کے قریب پہنچ کر رکشہ میں بیٹھ گئی رکشہ والا پاس میں ہی کھرا تھا مجھے دیکھتے ہی رکشہ میں آبیٹھا اور کہا جی بیٹی اب کدھر جانا ہے۔ میں نے آگے سے سوال کیا بابا آپ کا گھر کدھر ہے وہ حیران ہوکر کہا کیوں بیٹی؟
میں نے کہا یہ بچوں کے لئے کچھ سامان خریدا ہے آپ کے گھر جانا ہے بچوں کو یہ سب دینا ہے وہ اور بھی حیران ہوگیا کہ کیا کہہ رہی ہو بیٹی۔ میں نے کہا جی ایسا ہی ہے آپ اپنے گھر چلیں۔.
رکشے والے کے گھر پہنچتے ہی دیکھا تو گھر کا حال اسی طرح تھا جس طرح ایک بے بس انسان کے گھر کا حال ہوتا ہے۔ گھر میں داخل ہوتے ہی رکشہ والے بزرگ کی بیوی نے خوش آمدید کیا پھر بچوں کے ساتھ ملی اور سارے بچوں کے ساتھ تھوڑی بہت باتیں ہوئی سب کو اپنے اپنے حصے کے جوتے اور کپڑے تقسیم کئے ان کے گھرانے نے بہت پیار دیا اور میں نے بابا سے کہا مجھے گھر چھوڑنے کے بعد کولر والے سے اپنے لیے ایئر کولر بھی لے ائیں۔
کچھ وقت گزارنے کے بعد میں وہاں سے اپنے گھر کی طرف روانہ ہوگئی رکشہ والے بزرگ نے تشکر بھری آنکھوں سے دیکھ کر مجھے اپنے گھر کے سامنے چھوڑ دیا۔
گھر آتے ہی سب سے پہلے امی نے پوچھا کہ بیٹی کیا ہوا قربانی کا جانور لیا قربانی میں اپنا حصہ ڈال دیا کہ نہیں؟ میں نفی میں سر ہلایا اور پھر امی کے سامنے بیٹھ کر ساری روداد سنا دی ان کی آنکھوں سے آنسوں ٹپک رہے تھے۔ میرے دل میں عجیب سے سکون کا احساس ہو رہا تھا جیسے کہ میں نے آج دنیا کا سب سے بڑا کارنامہ سر انجام دیا ہو اور دل ہی دل سے آواز آرہی تھی کہ آپ کا "عید قرباں” کے ساتھ ساتھ "سنت ابراہیمی” کا فریضہ پورا ہوگیا۔
اب آپ لوگ اس کو میری اپنی ذاتی سکون کے لئے میرے ذہن کے پیدا کردہ دلیلیں سمجھے یا حقیقت میں یہ سمجھیں کہ قربانی ایک ہی ہے سنت ایک ہی ہے بس کبھی کبھی مختلف اوقات میں مختلف شکلیں اختیار کرتی رہتی ہے اور میں اسی بات اسی دلیل پر مطمئن ہو کر کہہ رہی ہوں کہ ہاں "عید قرباں” ہوگئی۔