یونان کشی حادثہ: نوجوان کیوں غیرقانونی طریقے سے یورپ جانا چاہتے ہیں؟
خالدہ نیاز
آنکھوں میں بہتر مستقبل کے خواب سجائے نجانے کتنے ہی نوجوان دریاؤں کی نذر ہو گئے۔ کتنی مائیں لخت جگر تو کتنے بوڑھے والدین واحد سہاروں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں لیکن پھر بھی غیرقانونی طریقے سے سفر کرنا کم نہ ہوا بلکہ اس میں اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔
گزشتہ دو دنوں سے یونان کشتی حادثہ خبروں میں ہے۔ کسی کا بیٹا کھو گیا ہے تو کسی کا باپ۔ مائیں بیٹوں کے لیے دعاگو ہیں تو کچھ لوگ پیاروں کی لاشیں اٹھائے ان بے حس حکمرانوں سے یہی سوال کر رہے ہیں کہ ان کا کیا قصور تھا؟
میڈیا رپورٹس کے مطابق یونان کشتی حادثے میں اب تک 79 افراد جاں بحق ہو چکے ہیں جبکہ سو سے زائد تارکین وطن کو بچا لیا گیا ہے۔ بچ جانے والوں میں 12 پاکستانی بھی شامل ہیں۔ رپورٹس کے مطابق کشتی میں سات سو سے زائد افراد سوار تھے اور کئی افراد اب بھی لاپتہ ہیں جن میں پاکستانی بھی شامل ہیں۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ نوجوان کیوں غیرقانونی طریقے سے یورپ جانا چاہتے ہیں؟ اس کا ایک ہی جواب بنتا ہے بہتر مستقبل کی تلاش میں۔ لیکن وہ یہ نہیں سوچتے کہ غیرقانونی طریقے سے جانا موت کو خود دعوت دینا ہے۔ یہ پہلا واقعہ نہیں ہے جس میں کئی قیمتی جانیں ضائع ہوئیں۔ اس سے پہلے بھی کئی نوجوان یورپ جانے کے چکر میں زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ کیا یہ نوجوان جو لاکھوں روپے ایجنٹ کو دیتے ہیں وہ یہاں اپنے ملک میں انویسٹ کر کے کاروبار نہیں کر سکتے؟ کیا باہر ممالک میں کام کرنا اور پیسہ کمانا اتنا آسان ہے؟ کیا وہاں محنت مزدوری نہیں کرنی پڑتی؟ کیا وہاں درختوں پر پیسے لگے ہوتے ہیں؟ یہ سب وہ سوالات ہیں جن کے جوابات یہ نوجوان اور ان کے والدین بہتر طریقے سے دے سکتے ہیں۔
دوسری جانب اگر دیکھا جائے تو ملک میں مہنگائی آسمان کو چھو رہی ہے۔ لوگوں کے لیے جینا دوبھر ہو گیا ہے۔ مڈل کلاس اور غریب طبقہ مہنگائی کی دلدل میں بری طرح پھنس چکا ہے۔ لوگوں کے پاس دو وقت کی روٹی تک کے پیسے نہیں ہیں۔ علاج کہاں سے کریں اور بچوں کو تعلیم کہاں سے دلوائیں؟ نوکریاں نہیں ہیں۔ جو نوکریاں ہیں وہاں سفارش چلتی ہے۔ میرٹ کی دھجیاں اڑائی جاتی ہیں اور سفارش والے لوگ آگے نکل جاتے ہیں۔ چند لاکھ دے دو اور نوکری لے لو، یہ کہاں کا انصاف ہے؟
جب ایک ملک میں بے روزگاری بڑھے گی؛ مہنگائی کا طوفان آئے گا اور سیاستدان کرسی کی جنگ میں مصروف ہوں گے تو نوجوان طبقہ یونہی مایوس ہو کے کبھی ایک ملک تو کبھی دوسرے ملک غیرقانونی سفر کرتے رہیں گے اور والدین لاشیں اٹھاتے رہیں گے۔
ان واقعات کا ذمہ دار کسی ایک شخص یا صرف حکومت کو نہیں ٹھہرایا جاسکتا۔ اس میں والدین کا بھی قصور ہے؛ حکومت کا بھی، ایجنٹس کا بھی اور سہولت کاروں کا بھی کیونکہ سہولت کاروں کے بغیر غیرقانونی طریقے سے سفر کرنا ناممکن ہے۔
غیرقانونی طریقے سے سفر کرنا ایک کاروبار ہے جس میں کئی لوگ ملوث ہیں۔ یہ لوگ پیسہ کمانے میں مصروف ہیں؛ ان کو کسی کی زندگی اور مستقبل سے کوئی غرض نہیں ہے۔ پیسے ملتے ہی یہ ان نوجوانوں کو بے یارو مدد گار چھوڑ دیتے ہیں اور یوں یہ نوجوان یا تو دریا کی موجوں کی نذر ہو جاتے ہیں یا ان کو سکیورٹی والے گولی مار دیتے ہیں یا بھوک پیاس سے بے حال ہو کر مر جاتے ہیں۔
لیکن پھر بھی یورپ کی رنگین زندگی دیکھ کر ان کا دماغ خراب ہو جاتا ہے اور یوں نکل پڑتے ہیں کسی انجان منزل کی طرف! قانونی طریقے سے بھی یورپ جایا جا سکتا ہے۔ اگرچہ اس میں وقت اور پیسے دونوں زیادہ لگتے ہیں لیکن وہ سفر اس سے کئی گنا بہتر ہوتا ہے۔ مگر افسوس! آج کل کے نوجوان بھی شارٹ کٹ کے چکر میں ہیں تب ہی زندگی اور راستے کی تکالیف کی پرواہ کئے بغیر غیرقانونی سفر پر روانہ ہو جاتے ہیں۔
غیر قانونی مہاجرت کو روکنا کسی ایک دن یا کسی ایک فرد یا حکومت کا کام نہیں ہے اس کے لئے دنیا کے ہر فرد کو کام کرنا ہو گا۔ حکومتوں کو نوکریاں دینی پڑیں گی تو والدین کا بھی اپنا کردار ہے۔ اس کے علاوہ اس کاروبار سے منسلک افراد اس میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں لیکن وہ کبھی ایسا نہیں کریں گے۔ متعلقہ اداروں کو آپس میں بیٹھ کر اس جانب توجہ دینے کی ضرورت ہے اور دولت کی منصفانہ تقسیم بھی غیرقانونی مہاجرت کو روکنے میں معاون ثابت ہو سکتی ہے۔
غیرقانونی مہاجرت کو روکنا وقت کی ضرورت ہے کیونکہ مائیں اور بہنیں لاشیں دیکھ دیکھ کے تھک چکی ہیں۔