بلاگزلائف سٹائل

دائیوں سے ڈیلیوری کروانا ایسا ہے جیسے موت کو خود دعوت دینا

 

تحریر : رعناز

پرسوں میں بہت تھکی ہوئی کالج سے گھر گئی۔ جیسے ہی میں گھر میں داخل ہوئی تو مجھے امی نظر نہیں آئی۔ ظاہر ہے جب ماں گھر پر نہ ملے تو پہلا جملہ جو ہمارے منہ سے نکلتا ہے وہ  یہی ہوتا ہے کہ  ” امی کہاں ہے؟” بالکل یہی جملہ میرے بھی منہ سے نکلا کہ امی کہاں ہے۔ میری بہن نے بتایا کہ امی گاوں گئی ہے کسی کی فوتگی پر۔ خیر یہ سننے کے بعد میں نے کھانا کھایا اور سو گئی۔ شام کو جب میں اٹھی تو امی واپس آچکی تھی۔ میں ان کے پاس بیٹھ گئی اور ان سے پوچھنے لگی کہ گاؤں میں کسی کی فوتگی ہوئی تھی؟

میرے اس سوال کے جواب میں امی نے مجھے ایک دردناک واقعہ سنایا۔ امی نے بتایا کہ اس لڑکی کی شادی کو ابھی 14 ماہ ہوئے تھے۔ یوں سمجھ لیجیے کہ ابھی وہ دلہن ہی تھی۔ وہ اپنے پہلے  بچے کو جنم دے رہی تھی۔ ڈیلیوری کے وقت گھر کا کوئی بھی فرد اسے ہسپتال نہیں لے کے جا رہا تھا۔ سب گھر والے ایک ہی بات پر اٹکے ہوئے تھے کہ ہماری اپنی خاندانی دائی ہے ۔اسی کو ہم بلائیں گے اور وہی ڈیلیوری کے وقت ہوگی۔ سب گھر والے یہی کہہ رہے تھے کہ وہ کافی تجربہ کار دائی ہے اور وہ سب کچھ سنبھال لے گی۔

خیر اس دائی کو بھلا تو لیا گیا مگر وہ کچھ بھی نہ سنبھال سکیں۔ نہ اس کے پاس کوئی تجربہ تھا نہ سیفٹی کٹ وغیرہ. اسے سرے سے پتہ ہی نہیں تھا کہ ڈیلیوری کے دوران پیدا ہونے والے ہنگامی صورتحال سے کیسے بچا جائے گا۔ لہذا ان ساری کمیوں اور کوتاہیوں کی وجہ سے وہ لڑکی اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھی۔

میں اس کو کمی اور کوتاہی بھی نہیں کہوں گی بلکہ اسے جاہلیت کہوں گی ۔ایک لڑکی مر رہی ہے اور آپ اسے ڈاکٹر کے بجائے ایک دائی کے حوالے کر رہے ہیں۔ کیا ایک دائی ڈیلیوری کے لیے وہ طریقہ کار اختیار کر سکتی ہے جو ایک ڈاکٹر کرتی ہے ؟  ایک دائی کے پاس وہ آلات اور سیفٹی کٹس ہوتے ہیں جو ایک ڈاکٹر کے پاس ہوا کرتے ہیں؟

ایک دائی کی خدمات ماں اور بچے دونوں کے لئے خطرناک ثابت ہو سکتے ہے کیونکہ وہ ایک غیر تربیت یافتہ عورت ہوتی ہے۔ نہ اس نے میڈیکل پڑھا ہوتا ہے اور  نہ ہی کوئی میڈیکل کورس وغیرہ کیا ہوتا ہے وہ صرف اپنے تجربے کی بنیاد پر کام کرتی ہے جو کہ انتہائی نامناسب اور غیر محفوظ ہے۔

دوسری طرف اگر یہ دائیاں صحیح طریقے سے ڈیلیوری کر بھی لے مگر پھر بھی آنے والے وقت میں اس عورت کو طرح طرح کی بیماریاں لاحق ہو سکتی ہیں کیونکہ ایک داعی اس طرح کا علاج کر ہی نہیں سکتی جو ہسپتال میں ڈاکٹرز کرتے ہیں۔ اس طرح کا خیال ایک دائی رکھ ہی نہیں سکتی۔ اسی طرح اگر ایک مریض کو کوئی ہنگامی صورتحال سے دوچار ہونا پڑے تو اسے کنٹرول کرنا پھر ایک دائی بالکل بھی نہیں کرسکتی بلکہ ایک ڈاکٹر کر سکتا ہے۔ کیونکہ ان کے پاس حالات کے مطابق ہر ایک چیز موجود ہوتی ہے جو کہ ایک گاؤں کی دائی کے پاس نہیں ہوتی۔ ایک دائی کے پاس وہ مہارت ،تربیت یا سامان نہیں ہوتا جو ڈاکٹر کے پاس ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے ماں اور اس کے بچے کو  پیچیدگیوں یا موت جیسے خطرے کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

ہاں اس کے ساتھ میں یہ بات بھی مانتی ہوں کہ کچھ تجربہ کار دائیاں بھی ہوسکتی ہے جو ڈیلیوری کے ٹائم ماں اور بچے دونوں کی دیکھ بھال کر سکتی ہے لیکن وہ اس صورت حال میں ممکن ہے جب بچے کی پیدائش گھر میں ممکن ہو لیکن اگر کوئی ہنگامی صورت حال پیش آ جائے جیسے کہ سیزیرین سیکشن وغیرہ تو ایسے حالات میں پھر ڈاکٹر سے ہی رجوع کرنا چاہیے نہ کہ مریض کو گاؤں کے کسی دائی کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جائے۔

ادھر میں ایک بات واضح کرنا چاہوں گی کہ ان دائیوں  کو اگر اچھی ٹریننگز وغیرہ دی جائے تو یہ بہت ہی اچھی کارکردگی دکھا سکتی ہیں۔ اس کے علاوہ اگر ان کو سیفٹی کٹس وغیرہ بھی مہیا کیے جائے  تو یہ اپنے تجربے کی بنیاد پر  اور ان آلات کو استعمال کرتے ہوئے اچھا کام کر سکتی ہیں۔

مگر ان ٹریننگز اور تجربے کے بغیر ان دائیوں سے ڈیلیوری کروانا ایسا ہے جیسے موت کو خود دعوت دینا۔  لہذا ہم سب کو یہ بات سمجھنی  اور ذہن نشین کرنی چاہئے کہ ہمیشہ ڈیلیوری کے لئے مریض کو ہسپتال لے کے جانا چاہیے تاکہ ان کے ساتھ مناسب برتاؤ ہو جائے اور ماں اور بچے دونوں کی زندگی محفوظ رہے۔

رعناز ٹیچر  اور کپس کالج مردان کی ایگزام کنٹرولر ہیں  اور صنفی  اور سماجی مسائل پر بلاگنگ بھی کرتی ہیں۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button