"ماشاءاللہ کتنی موٹی ہیں ایسا بھی کیا کھاتی ہیں”
سعدیہ بی بی
پچھلے دنوں ٹیلی ویژن پر ” پیاری مونا "کے نام سے ایک ڈرامہ چل رہا تھا جس میں ایک سین ایسا تھا جس میں والد اپنی بیٹی کو سمجھا رہے ہوتے ہیں کہ بیٹا اپنے شوہرکو ٹائم دو اور خود پر توجہ دو۔ بیٹی کا کہنا تھا کہ میں تو انہیں ٹائم دیتی ہوں وہ خود مجھ سے دور بھاگتے ہیں۔ وہ مجھے پسند نہیں کرتے کیونکہ میں موٹی ہوں۔ وہ ساری ساری رات باہر رہتے ہیں کیونکہ وہ مجھے دیکھنا گوارا نہیں کرتے۔ بابا ہماری سوسائٹی میں موٹاپے کو اتنی بری نظر سے کیوں دیکھا جاتا ہے ؟ ہماری سوسائٹی میں انہی باتوں کی وجہ سے میری جیسی اور لڑکیاں بھی احساس کمتری کا شکار ہو جاتی ہیں اور پھر وہ ہر قسم کی دوائیاں کھانا شروع کر دیتی ہیں تاکہ وہ اس معاشرے کی طعنوں سے بچ سکیں لیکن انہیں یہ معلوم نہیں کہ ہم جو یہ مختلف قسم کی دوا لیتے ہیں یہ ہمارے لیے جان لیوا ہوتی ہیں۔
یہ سین دیکھتے ہی مجھے کچھ دن پہلے ہوا ایک واقعہ یاد آیا ۔ جب میں بازار سے گزر رہی تھی تب ایک خاتون بھی وہی سے گزر رہی تھی۔ ماشااللہ قد جسامت ہر لحاظ سے بہت اچھی تھی۔ آگے سے آنے والے ایک آدمی نے ان کو دیکھتے ہی بولا ” ماشاءاللہ کتنی موٹی ہیں ایسا بھی کیا کھاتی ہیں۔ اتفاق سے خاتون نے یہ سن لیا اور انہوں نے آگے سے بہت کچھ سنا دیا۔ میں بھی وہیں کھڑی سب سن رہی تھی۔ خاتون کی ایک بات مجھے بہت اچھی لگی۔ انہوں نے جواب میں بولا کہ کیا میں تمہارے حصے کا کھانا کھاتی ہوں یا اللہ نے تمہارے حصے کا گوشت بھی مجھے دے دیا ہے۔
کافی دیر تک ان بن ہوتی رہی بس پھر وہ صاحب بہت شرمندہ تھے انہوں نے معافی مانگی اور وہاں سے چل دیئے۔ یہ سب سن کر اور دیکھ کر بہت حیرت ہوئی۔ ہمارا معاشرہ کسی کے موٹاپے کو اتنی بری نگاہ سے کیوں دیکھتا ہے۔ اگر دیکھا جائے تو جب کسی لڑکی کا رشتہ آتا ہے تو سب سے پہلے یہی پوچھا جاتا ہے کہ لڑکی موٹی تو نہیں۔ اگر موٹی ہو تو رشتے سے انکار کر دیا جاتا ہے۔ اگر لڑکی کہیں جاب انٹرویو کے لیے جاتی ہے تو بعض اوقات وہاں بھی موٹاپے کی وجہ سے ریجیکٹ کر دیا جاتا ہے۔ میں تو یہ سوچتی ہوں کے ہمارے معاشرے کو لڑکیوں کے موٹے ہونے سے کیا مسئلہ ہے اور اگر لڑکا موٹا ہو تو بولا جاتا ہے کہ ” یہ اس کی باڈی ہے ، میرا بیٹا روز جم جاتا ہے ، باڈی بنا رہا ہے ، بلکہ وہ بھی موٹے ہی ہوتے ہیں۔ پر ان کے بارے میں ایسے جملے سننے کو ملتے ہیں۔ اگر دوسری طرف دیکھا جائے تو آج کل بعض لڑکوں کو موٹی لڑکیاں بھی پسند ہوتی ہیں لیکن اس کے گھر والوں کو نہیں۔ یہی وجہ ہوتی ہے کہ پھر لڑکیاں ہر قسم کی میڈیسن استعمال کرنے لگ جاتی ہیں جس سے اور مسائل پیدا ہو جاتے ہیں۔
ہم اگر چاہیں تو معاشرے کو ٹھیک کرنے میں کردار ادا کرسکتے ہیں پر کوئی خود کو ٹھیک کرنا ہی نہیں چاہتا۔ ہمیں ایسی باتوں سے پرہیز کرنا چاہئے جس سے کسی کا دل دکھے کیوںکہ آپ کے ایک جملے سے کوئی احساس کمتری کا شکار ہو سکتا ہے۔ کوئی موٹا ہے یا پتلا، کمزور ہے لمبا ہے یا چھوٹے قد والا ہمیں انکو ویسے ہی قبول کرنا چاہئے جس طرح وہ ہے۔
سعدیہ بی بی کمپیوٹر سائنس کی طالبہ ہیں اور مختلف سماجی و معاشی مسائل پر بلاگ لکھتی رہتی ہیں۔