رواجوں کے پھندے میں جکڑی پشتون قبائلی عورت
تحریر: نوشین فاطمہ
چند روز قبل کچھ ہے در پے واقعات نے مجھے مایوسی کے دلدل میں دھکیل دیا اور میں سوچنے پر مجبور ہوگئی کہ شائد پشتون قبائلی عورت اب کبھی بھی رواجوں کے پھندے سے نہیں نکل پائے گی۔ ایک تو ہمارے علاقے سے پانچ دن قبل ایک بچی گھر سے بھاگ گئی اور ڈرائیور نے اس کی مشکوک حرکات کو دیکھا تو ایف سی اہلکار کو مطلع کیا جس پر اس کو گرفتار کر کے پھر جج کے سامنے پیش کیا گیا جہاں اس نے بتایا کہ اس کی شادی زبردستی چچا کے بیٹے سے کروائی جا رہی تھی جبکے وہ ماموں کے بیٹے سے شادی کرنا چاہ رہی تھی۔ اس کے اگلے دن خیبر ڈسٹرک میں صوبائی محتسب کی خصوصاً وراثت کے حوالے سے خواتین کی کھلی کچہری کو روک دیا گیا کہ ہم اپنی عورتوں کے حقوق کے علمبردار ہیں۔
سوال یہ ہے کہ یہ بھائی حق کا مطلب سمجھتے ہیں۔ کیا کبھی کسی بھی ڈسٹرک جرگہ ہال میں کبھی عورتوں کے کسی حق کی بات ہوئی۔ صدیوں سے جکڑی گئی رواجوں میں پشتون قبائلی عورتیں اکیسویں صدی میں بھی بنیادی حقوق کے حصول کیلئے جان کی قربانی دے رہی ہیں۔ میں شروعات سے آپ کو رواج گنواتی ہوں اور پھر کسی کو لگے میں نے غلط کہا تو میرے پاس ثبوت موجود ہیں۔
رواج کا پھندہ، پسند کی شادی اس کی اجازت مذہب اور پاکستان کا قانون دیتا ہے۔کیا کسی قبائلی پشتون عورت سے کبھی اس کی پسند کے بارے میں پوچھا گیا ہے۔
غگ بہت عام سی بات ہے اکثر جب کسی لڑکی کا اچھا رشتہ بھی جاے تو والدین خاندان میں رشتے دار سے کہہ کر پوچھواتے ہیں کہ اگر آپ رشتہ نہیں کرنا چاہتے تو ہم وہاں کر دیتے ہیں اور اگر کوئی کزن شادی کا دعویدار ہو تو کسی اور سے شادی کا تصور بھی نہیں۔
سورہ جی بھائی باپ یا چچا کے گناہوں کی سزا میں ایک بے گناہ عورت کی زندگی کو برباد کر دیا جاتا تھا کچھ حد تک یہ اب کم ہے لیکن مکمل اب بھی ختم نہیں. یاد آیا ایک اعلیٰ پائے کی سیاسی پارٹی کی ایک محترم خاتون نے اسلام آباد میں میرے سامنے کہا کہ یہ تو اچھا کہ ونی ہو جائے لیکن دشمنی ختم ہوجائے۔ ایسے خیالات کے لوگ ہمارے سربراہ ہیں۔
وٹہ سٹہ یا ادلہ بدلہ شادی کے اخراجات سے بچنے کیلئے عمر اور مرضی کو دیکھے بغیر کتنے لوگوں کی زندگی کو برباد کیا گیا۔ ولور یا بیٹی کو بیچنا۔ جی اب آپ اس تو انکار نہیں کر سکتے کیونکہ یہ بہت ہی عام ہے اور اس کو نہ لینا برا سمجھا جاتا ہے۔
رواج کا پھندہ غیرت کے نام پر قتل۔ بہت عام اور معمولی سی بات ہے اور اکثر باہر دشمن کو گولی سے مار کر اندر گھر میں بیوی کو قتل کر کے دونوں پر بدکردار ہونے کا الزام لگا دیا جاتا ہے اور سب ختم کوئی پوچھنے والا نہیں۔ دوسری شادی۔ بالکل عام سی بات جس میں پہلی بیوی سے اجازت لینے کی ضرورت نہیں اسلام کا غلط استعمال کیونکہ مذہب تو پھر الگ گھر گھر کے کاموں کیلئے ملازم بچوں کو دودھ پلانے کا معاوضہ وغیرہ بہت سے حقوق اور مراعات دیتا ہے۔ بیٹا پیدا نہ ہونے پر دوسری شادی اور بیٹا پیدا کرنا بھی بہت لازم ہے۔ اور اگر آپ اس خدائی خصلت سے محروم ہیں تو آپ کے شوہر پر لازم ہے کہ وہ دوسری شادی کرے اور آپ کو اس کی شادی میں خوشی کا اظہار بھی لازمی ہے۔
چھوٹی عمر کی شادی بچپن کی شادی بھی بہت عام ہے کیونکہ بیس سال کی عمر میں آپ کی شادی کی عمر گزر گئی ہے۔ لگتا ہےاس میں کوئی مسلہ ہے اس سے کم عمر بچیاں تو مائیں بن گئیں ہیں اور اس رواج میں لڑکا اور لڑکی دونوں کی کم عمر میں شادی کر دی جاتی ہے اور اس طرح کم عمر میں ڈھیر سارے بچے پیدا کر کے عورت اپنی صحت اور خوبصورتی کھو دیتی ہے تو لڑکا اس عمر میں پہنچتا ہے جہاں وہ پھر اپنی پسند سے شادی کرنا چاہتا ہے اور کرتا بھی ہے۔
جائیداد میں حصہ دینا یہ نا ممکن بات ہے کیونکہ اب تک تو شاملات کا ڈرامہ چلا اب اس کے ختم ہوتے اور قانون کی رسائی سے آپ کے رواج کے ٹھیکیداروں کی چیخیں نکل گئیں۔ اتنا حوصلہ تھا ایک خاتون قانون دان ان خواتین سے ملنا چاہ رہی تھی تو آپکا رواج خطرے میں پڑھ گیا۔ بیوہ پر دیوروں کا قبضہ اور اگر کوئی عورت بیوہ ہو جاتی ہے تو سامان کیطرح پھر قبضہ ہوتا ہے کہ یہ میری ملکیت ہے اور کچھ جگہوں پر تو بیوہ ماں کو بیٹوں نے ولور کے نام پر بیچ دیا۔ سکول پڑھانے کی بات کو میں رواج میں نہیں لاؤں گی کیونکہ اس کے بے پناہ اور وجوہات بھی ہیں۔ ہسپتال اور بازاروں اور تفریحی مقامات میں جانے پر پاپندی۔ ستر فیصد خواتین کو ہسپتال سے زیادہ خود سے دوائیاں لے کر یا دائی لا کر تباہی کرنا بھی عام ہے کہ رستے میں اور ہسپتال میں مرد ہوں گے۔
اسی طرح بازار اور تفریحی مقامات پر بھی جانے کا حق ان کو رواج نہیں دیتا ہے اور اب تو آپ وقت کے ساتھ نئے رواج بھی متعارف کروا رہے ہو۔ ریڈیو پر خواتین کا بات کرنا جرم ۔عورت کے پاس موبائل ہونا اس کے بدکردار ہونے کے لئے کافی ہے اور اسی طرح اول تو ووٹ کاسٹ کرنے کے حق سے محروم اور پھر کاسٹ کرنا بھی ہے تو گھر کے مرد جس کو ووٹ کاسٹ کرنے کا کہیں گے صرف اسی کو ووٹ ڈالا جائے گا۔
کھیتوں میں کام کرنے اور پانی بھر کے لانے کا رواج ہر قبائلی ضلعے میں آپ کو یہ کام زیادہ تر عورتیں ہی کرتی ملیں گی مرد آپ کو انتہائی کم یہ کام کرتے دیکھا گیا ہے۔ گھر میں تمام تر معاشی ملکیت مرد کی ۔ ویسے یہ ہر جگہ عام ہے لیکن یہاں عورت کی کمائی بھی کبھی اس کی اپنی نہیں ہوتی اور سارے گھر کو اچھی خوراک مہیا کرنے والی یہ عورتیں اسی فیصد خود خون کی کمی کا شکار ہوتیں ہیں۔ جرگہ اب ان رواجوں کو مستحکم اور دوام بخشنے والا نظام پدرسری کے بعد جرگہ ہے کیونکہ یہ بھی ایک رواج ہی شمار ہوگا اور ان رواجوں کے تناظر میں اس میں فیصلے کئے جاتے ہیں جس میں براہ راست اور کسی بھی طریقے سے کوئی عورت فریق نہیں ہوتی۔ تو عورتوں کے حقوق کے علمبردار سے درخواست ہے اول ان رواجوں کے خلاف اٹھ جاؤ پھر کسی سرکاری خاتون کو این جی او کہنا۔ دنیا کی زیادہ تر عورتیں رواجوں کے پھندوں میں کھڑی ہیں لیکن پشتون قبائلی عورت ان رواجوں کے پھندوں کو ابھی پھندہ سمجھیں بھی نہیں جہاں دنیا کی عورتیں ان رواجوں سے آزاد ہو رہی ہیں ۔پشتون قبائلی عورت اس کو خوشی خوشی نبھاہ رہی ہے اور یکہ دکا کو ان رواجوں کی بھینٹ چڑھا کر مار دیا جاتا ہے۔
نوشین فاطمہ ایک سماجی کارکن اور بلاگر ہیں۔