بلاگزلائف سٹائل

جب پیرا ابئ نے مجھے کہا کہ میں نے جنات سے پنگا لے لیا ہے

 

تحریر: نوشین فاطمہ

میں اپنے کمرے میں حسب معمول موبائل میں ٹک ٹاک ویڈیوز دیکھ رہی تھی کہ وہ چیختی ہوئی اوپر آئی۔ جاؤ اس کو دیکھ کہ آؤ میرے بھتیجے کو اس نے نیچے اپنے شوہر کے پیچھے بھیجا۔ اسکی چیخ و پکارسے مجھے لگا کہ شاید کوئی مر گیا ہے اپنی تمام تر کاہلی کے باوجود  باہر آئی اور اس سے مسئلہ پوچھ کے تسلی دینے لگی۔

یہ کچھ عرصہ قبل کی بات ہے۔ جو چیختی ہوئی آئی تھی یہ میری پڑوسی ہے۔ ہسپتال میں نرس ہے اور اس کے دو بیٹے ہیں جس میں ایک کی عمر پانچ اور دوسرے کی تین سال ہے۔ یہ مذہب کے لحاظ سے میری عیسائی بہن ہے اوریہ بنیادی طور پر کوہاٹ شہر کی رہنے والی ہے۔ انکی مادری زبان ہندکو ہے اور اس کی شادی بھی پنجاب میں ہوئی ہے۔ اس تمام تعارف کا مقصد یہ ہے کہ یہ واضح کرتی چلوں کہ مذہب ،قومیت اور لسانیت سے زیادہ مسائل کی بنیاد کچھ اور بھی ہے۔

اپنے شوہر سے مار کھا کر آنے والی عورت نہ تو  مسلمان تھی نہ پشتون تھی نہ ان پڑھ اور نہ ہی معاشی لحاظ سے اپنے شوہر کی محتاج کیونکہ یہ نوکری کرتی ہے اور اس کا شوہر بچوں کا خیال رکھتا ہے لیکن اے ٹی ایم کارڈ اس کے شوہر کے پاس ہی ہوتا تھا۔ معمولی سی تکرار پر وہ اس کو مار پیٹ کر  اپنے شہر فیصل آباد چلا گیا اور مجبوراً اس نرس کے والد اپنی بیٹی کے پاس رہنے آئے اور پچھلے تقریباً دو یا تین ماہ سے ادھر بیٹی کے ساتھ ہیں۔ اس پر ان کا اکلوتا بھائی بھی کچھ خاص خوش نہیں کہ ان کے والد یہاں ہے۔  خیر ہر طرف سے اس عورت پر دباؤ ہے شوہر کہتا ہے کہ نوکری چھوڑو فیصل آباد آکر رہو اور بھائی چاہتا ہے کہ والد اپنے گھر میں رہے کیونکہ اس طرح مکمل بوجھ اس پر پڑ گیا ہے اور یہ اتنا تنگ ہو گئی ہے کہ سارے ترکیبیں دیکھ لی بڑوں نے بات کی یہ بچوں کو دو دفعہ لے گئی بھائی نے دھمکیاں دی پر کچھ نہیں بنا کیونکہ  اسکے شوہر کو وہاں کتوں کی ریس کروانے کی لت ہے ہمیشہ سے جس کے لیے ہر ماہ بیوی بچوں کو یہاں اکیلا چھوڑ کر فیصل آباد بھاگ جاتا تھا۔

اب چونکہ بڑے بیچ میں آگئے تو یہ آزادی اس کو خطرے میں لگ رہی ہے اس لئے وہ یہاں نہیں آنا چاہتا وہ جانتا ہے بچوں کی ماں ان کو پال رہی ہے خیال رکھا جا رہا ہے اور ساتھ ہی کنوارے پن کے مزے بھی لوٹ سکتا ہے کیا ضرورت ہے یہاں آنے کی۔ اب آتے ہیں اصلی مسئلے کی طرف کہ ان کے درمیان ایسا کیا ہوا تھا اس عورت نے اپنے کزن جو کہ ان کے پادری بھی ہیں ان سے کہا تھا کہ دعا کروا دیں کہ یہ بار بار لڑ کر کتوں کی ریس کیلئے نہ جائیں کیونکہ پھر ہم کو مہینے کے آخر میں قرض مانگنا پڑتا ہے اور اس کا یہ مسیج اس کے شوہر نے اس کے موبائل میں دیکھ لیا کہ تم مجھ پر تعویز گنڈے کر رہی ہو۔ مزے کی بات یہ ہے کہ اس نرس کا دعویٰ ہے کہ اس کی ماں باقاعدہ  تعویز گنڈوں میں ملوث ہے کہ وہ روانہ صبح نکلتی ہے اور شام کو آتی ہے ان تعویزوں کے لیے کیونکہ میں نے اپنے شوہر اور نند کے شوہر کی پاسپورٹ سائز کی تصویریں اس کے بٹوے میں دیکھی ہیں۔ اس نے مجھے سے کہا آپ دیکھیں نا باجی کیسے اپنے بچوں کے بغیر رہ رہا ہے یہ تعویز نہیں تو اور کیا ہے۔ اب ہسپتال میں جہاں یہ کام کر رہی ہے وہاں اس کو ایک خالہ نے بتایا کہ بڈھ بیر میں ایک عورت ہے جس پر پری حاضر ہوتی ہے اور لوگوں کو کام جلد از جلد کروا دیتی ہے آپ کا شوہر آپ کے قدموں میں ہو گا جو کہو گی وہ مانے گا۔ ویسے ہی میرے شرارتی تصور میں یہ عورت اور اس کا شوہر ائے اور اس کا شوہر اس کے قدموں میں پڑا تھا اور اس نے کہا اٹھو اور وہ اٹھ گیا پھر کہا بیٹھو اور وہ بیٹھ گیا اور میں نے اپنی ہنسی قابو میں کی اور بډھ بیر کا رخ کیا پیرا ابی سے ملنے۔

ایک ٹوٹے پھوٹے کچے مکان میں جب ہم اندر جا رہے تھے تو خیال آیا کہ پری محترمہ نے پیرا ابئ کو اچھا سا گھر ہی لے کردے دیا ہوتا خیر باقی گھر میں صفائی نہ ہونے کی وجہ سے جو بدبو تھی اس کا حال لکھنا محال ہے۔

یہ کیا پیرا ابئ تو لگ بھگ میری ہی عمر کی عورت تھی جو کہ جلدی جلدی کپڑے بدل رہی تھی کہ گاہک مطلب تعویز کروانے والے آئے ہیں۔ خیر پیرا ابئ نے پوچھا سب اور مزے کی بات تھی اس کم عقل نے ڈرتے ڈرتے سب بتا دیا اور وہ نرس جس کا مقام میری نظروں میں بہت اونچا ہے جیسے وہ لوگوں کے کام آتی ہے دب کے اپنا مسلہ سنا رہی تھی اس ایکٹر کے سامنے مجھے بہت ہی برا لگا پر خاموشی مجبوری تھی۔

اس نے بھی مکمل وہی کہا کہ آپ کا شوہر تو بہت اچھا ہے آپ کو بہت پیار کرتا ہے یہاں آنا چاہتا ہے لیکن اس کی ماں اس پر کالا جادو کروا چکی ہے۔ ویسے سوچا سفید جادو کیسا ہوگا۔ اس کا توڑنا ممکن نہیں لیکن بہت ہی مشکل ہے اور اس کے لئے آپ کسی اور کے پاس جاؤ بے چاری نرس نے کہا کہ آپ بتا دیں کیا کریں۔کتنا خرچ آئے گا۔ بس ہم تو اودھ اور زعفران کے ساتھ کام کریں گے وہ آپ لے آئیں یہ بہت مہنگا ہے اور پھر آپکا خرچ اور بھی زیادہ ہوگا۔ کچھ جنات اپنے خیرات کے لیے لے جاتے ہیں اور کچھ ابی کی دوائیوں کے لیے میں نے جلدی سے کہا دوائی تو یہ لا دیں گی۔تو انہوں نے بات کاٹ کر کہا ان کی دوائیاں یہاں نہیں ملتیں یہ پرستان سے آتی ہیں۔ بس مجھے غصے سے بیہوشی کا دورہ آتے آتے بچا میں نے کہا سنیے آپ واقعی بہت پہنچی ہوئی ہستی ہیں۔ میرا بھی حساب لگا دیں۔ اپنا نام بتاؤ اور اپنی امی کا میں نے بتا دیا۔ واہ تمھارا دل تو بہت اچھا ہے۔ ویسے ایسی بات کس کمبخت کو بری لگیں گی۔ میں نے پوچھا آپ حساب کرنے کے کتنا ہدیہ لو گی۔ بولا پانچ سو روپے اور میں نے کہا ان کا حساب اور کام دونوں کا بولا اگر سامان وغیرہ اپنا ہو تو تیس ہزار ورنہ چالیس ہزار لوگوں کے چودہ طبق روشن ہوتے ہیں میرے چالیس ہو گئے ۔کروں آپکا حساب ؟؟

میں سوچ میں کہاں پہنچ گئی کہ کتنا آسان اور منافع بخش کاروبار ہے۔ جی جی آپ حساب کر دیں کہ میرے شوہر مجھ سے ایک ہفتے سے کیوں بیزار ہیں؟ نرس نے مجھے حیرت سے دیکھا وہ نو ماہ سے ہمارے پڑوس میں رہ رہی ہے اور جانتی ہے کہ تین سال پہلے میں نے خلع لی ہے۔ میں نے آنکھوں سے اسے چپ رہنے کو کہا۔ مکمل مجھے بھی یہ نوید سنائی گئی کہ میرا شوہر مجھے بہت چاہتا ہے اور کچھ میری چمڑی کو دیکھ کر کہا تمھیں نظر بھی لگی ہے اور  پندرہ دن پہلے میرے سسرال میں ایک عورت نے ایسا تعویز کیا ہے کہ وہ مجھ سے بدظن ہو لڑے گا اور مجھے چھوڑ دے گا جس کمال مہارت سے وہ بول رہی تھی مجھ لگا کہ اس خاتون کو قتل کر دوں۔ دل میں اس کے ٹیلنٹ کی فین ہو گئی۔

بس نرس نے کہا کہ آپ سچ کہہ رہی ہے کہ اس کے شوہر پر تعویز کے اثرات ہیں ؟ تو اور کیا ورنہ ایسی خوبصورت بیوی سے کون لڑتا ہے میں نے کہا سچ ہی تو کہہ رہی ہے اور ہنسنا شروع کیا۔ اس کو غصّہ اگیا۔ اور آنا بھی چاہیے تھا کہ خاپیرے کہہ رہی ہے اس کو نکالو ورنہ ابھی اس کو نقصان پہنچ جائے گا میں نے کہا پہنچاؤ ۔تو نرس نے کہا اس کا تو شوہر ہی نہیں بس اس نے کہا نکالو ان کو اب کہیں کوئی بھی کام کبھی بھی نہیں ہو گا۔ اس نے جنات سے پنگا لیا ہے۔ یہ اب اپنا حال دیکھ لے تمھاری بھی اس کی وجہ سے  زندگی تباہ ہوگئی۔

میرے دماغ میں آیا ایک تو بڈھ بیر کا علاقہ اوپر سے کوئی مذہبی توہین کا الزام ہی نہ لگا دیں۔ اس لیے بس بھاگنے میں ہی عافیت سمجھی اور واپس آکر مجھے لگا کہ اب اس کو ضرور عقل آگئی ہو گی لیکن کل رات وہ اوپر آئی اور کہا باجی آپ کو پتہ ہے کہ عورتیں تو ایسے ہی جھوٹی ہوتی ہیں چلہ کوئی آسان کام تھوڑی ہے۔ یہ تو مرد کرتے ہیں میری دوست نے بتایا ہے کہ پندو میں ایک بابا ہے وہ بہت ہی پہنچے ہوئے بزرگ ہیں۔ وہاں میرے ساتھ چلیں پلیز میں حیران پریشان اس کی شکل کو دیکھ رہی تھی کہ میں اس کو کیا کہوں۔

ہم اس پدر سری نظام میں غلط تربیت اور فرسودہ رسومات اور عقائد کو تقویت دے رہے ہیں اور اس طرح ہم مذہب پرست لوگ صرف نظر کے دھوکے سے ہی متاثر ہونا چاہتے ہیں اب دھوکے دینے والی عورت ہے یا مرد۔ مذہب کیا ہے۔اس کا خاندان کیا ہے ۔اس کا رہنے کا سلیقہ کیا ہے۔ بس عجیب اندھا ہونا پسند کرتے ہیں اور سنجیدگی سے اپنے مسائل کا حل ڈھونڈنے کی بجاے ہم لوگوں کو پیسے دے کر اپنے لیے اور ذہنی الجھنیں بھی خرید لاتے ہیں ۔ہمیں با شعور ہونا پڑے گا اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے۔

کیا آپ بھی اپنے مسائل کے حل کے لیے تعویز اور گنڈو کا سہارے لیتے ہیں؟؟

نوشین فاطمہ ایک سماجی کارکن اور بلاگر ہیں۔

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button