بلاگزلائف سٹائل

ضلع خیبر میں خواتین کے لیے ہونے والی کھلی کچہری کیوں رکوا دی گئی؟

خالدہ نیاز

چند روز قبل میں نے ایک پوسٹر دیکھا جس پر لکھا گیا تھا کہ ضلع خیبر میں خواتین کے لیے ایک کھلی کچہری کا انعقاد کیا گیا ہے جس میں خواتین جائیداد سے متعلق مسائل کے حوالے سے وکلاء سے مفت قانونی مشورے لے سکتی ہیں۔ یہ دیکھ کر مجھے بہت خوشی محسوس ہوئی کہ اب قبائلی خواتین کی آواز بھی سنی جائیں گی، اب وہ بھی اپنے حق کی بات کرسکیں گی۔

آج کچہری ہونے والی تھی لیکن صبح ہی مجھے معلوم ہوا کہ چند مشران کی وجہ سے اب یہ نہیں ہورہی۔ اس خبر سے ایک طرف مجھے دکھ ہوا تو دوسری طرف غصہ بھی آیا کہ انتظامیہ ایسے ایونٹ کرانے میں ناکام کیوں ہے اور مشران خواتین کو حقوق دینے سے خوفزدہ کیوں ہے؟

جو حقوق اسلام نے خواتین کو دیئے ہیں وہی حقوق یہ معاشرہ کیوں عورت کو نہیں دے رہا۔ میں نے ضلع خیبر کے قبائلی مشر کا ایک ویڈیو بیان بھی سنا جس میں وہ کھلم کھلا کہہ رہا تھا کہ انہوں نے اس کھلی کچھری کو رکوایا ہے اور یہ کہ وہ این جی اوز کی خواتین کو یہاں ایونٹ نہیں کرنے دیں گے۔

موصوف یہ کبھی کہہ رہے تھے کہ وہ بے حیائی کی اجازت نہیں دیں گے، یہاں میرا ایک سوال بنتا ہے کہ خواتین کو کھلی کچہری میں بلانا اور ان کے جائز حقوق کی بات کرنا کونسی بے حیائی ہے۔ افسوس اس بات کا ہے کہ ہماری انتظامیہ اور قانون نافذ کرنے والے ادارے بھی ان مشران کے سامنے بے بس ہوجاتے ہیں اور یوں خواتین کے حقوق کی بات بیچ میں رہ جاتی ہیں۔

قبائلی خواتین شروع سے اپنے حقوق سے محروم رہی ہیں۔ چاہے وہ تعلیم کا حق ہو، بہتر علاج کا حق ہو یا مرضی کی شادی کا حق ہو۔ اگر دیکھا جائے تو اسلام نے خواتین کو سارے حقوق دیئے ہیں لیکن ہمارا معاشرہ ان کو بنیادی حقوق بھی نہیں دے رہا اور جہاں ان کے حقوق کی بات ہوتی ہے ایسے ایونٹس کو بھی رکوا دیتے ہیں۔ یہ کہاں کا انصاف ہے۔

قبائلی خواتین جب سروں پہ دور دراز سے پانی لاتی ہیں تب تو کہیں بھی غیرت کی بات نہیں آتی، لیکن جب اپنے حق کے لیے آواز اٹھاتی ہیں تو پھر یہ یہ کمزور معاشرہ ڈرنے لگتا ہے کیونکہ یہ معاشرہ خواتین کو حقوق دینا ہی نہیں چاہتا۔

اس معاشرے نے سزا صرف عورت کے لیے رکھی ہے، عورت اگر کچھ کرتی ہیں تو اس کو بے حیا کہا جاتا ہے لیکن اگر وہی کام مرد کریں تو کچھ نہیں ہوتا۔

فاٹا انضمام کے بعد قبائلی اضلاع میں نہ صرف پولیس تھانے بن گئے ہیں بلکہ عدالتوں کا دائرہ اختیار بھی بڑھا دیا گیا ہے جس کے بعد اب قبائلی خواتین بھی اپنے حقوق کے لیے عدالتوں کا دروازہ کھٹکھٹا سکتی ہیں۔

کچھ عرصہ پہلے جمرود خیبر سے تعلق رکھنے والی بیس خواتین نے صوبائی محتسب کے پاس درخواست بھی جمع کی ہے جس میں انہوں نے قبیلے کی جائیداد میں اپنا حصہ مانگا ہے۔ اس سے پہلے لنڈی کوتل میں ایک خاتون نے بھائی سے حصہ مانگنے کے لیے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا ہے۔ قبائلی خواتین بھی اب جان گئی ہے کہ ان کے حقوق کیا ہیں اور اگر کوئی انکو جائز حقوق سے محروم کرتا ہے تو وہ اس کے خلاف عدالت جاسکتی ہیں اور شاید یہی وجہ ہے کہ کچھ لوگوں سے یہ برداشت نہیں ہو پا رہا۔

جائیداد میں حصہ نہ دینا نہ صرف قبائلی علاقوں کا مسئلہ بلکہ ملک کے باقی حصوں میں بھی خواتین کو اس حق سے محروم کیا جارہا ہے جوکہ زیادتی ہے۔

ضلع خیبر کی اگر بات کروں تو یہاں اس سے پہلے گرلز سائیکل ریلی کو بھی کافی تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا اور اس کو بھی بے حیائی سے جوڑا گیا تھا حالانکہ یہ ایک صحتمندانہ سرگرمی تھی۔

یہ جدید ٹیکنالوجی کا دور ہے، اب دنیا گلوبلائز ہوچکی ہیں اور لوگوں میں شعور آگیا ہے لہذا وقت آگیا ہے کہ خواتین کو بھی اپنے حقوق سے محروم نہ کیا جائے اور ان کو بھی اپنے حق کے لیے آواز اٹھانے کی اجازت دی جائے بلکہ ان کو حقوق دیئے جائے تاکہ انکو آواز ہی نہ اٹھانی پڑے۔

فاٹا کا خیبر پختونخوا کے ساتھ انضمام ہوچکا ہے جس کے بعد قبائلی خواتین حقوق کے لیے آواز اٹھا سکتی ہیں لہذا انتظامیہ کو بھی چاہے کہ خاموش تماشائی بننے کی بجائے ان کے حقوق کے لیے کام کریں اور قانون کو ہاتھ میں لینے والے افراد کے خلاف کارروائی کریں۔

Show More

Salman

سلمان یوسفزئی ایک ملٹی میڈیا جرنلسٹ ہے اور گزشتہ سات سالوں سے پشاور میں قومی اور بین الاقوامی میڈیا اداروں کے ساتھ مختلف موضوعات پر کام کررہے ہیں۔

متعلقہ پوسٹس

Back to top button