بلاگزتعلیم

اساتذہ سے بدتمیزی اور تشدد آخر ہمارے طلباء کس طرف جارہے ہیں؟

 

تحریر:  رعناز

دو دن پہلے کی بات ہے کہ طبیعت ٹھیک نہ ہونے کی وجہ سے میں تھوڑا  لیٹ کالج گئی۔ جیسے  ہی میں کالج میں داخل ہوئی تو مجھے طلبہ کے چیخنے چلانے کی آوازیں سنائی دیں۔ تھوڑا آگے بڑھنے پر مجھے ادھر ادھر  ٹوٹے پھوٹے گملے بھی دیکھنے کو ملے۔ کالج میں ایک عجیب سا سماں تھا۔ کالج کے اس حال کی وجہ پوچھنے پر پتہ چلا کہ آج ایک طالب علم نے پرچے کے دوران استاد سے بدتمیزی کی ہے۔ معاملہ کچھ یوں تھا کے اس طالب علم کے ہاں سے کچھ نقلی مواد استاد نے نکالا تھا۔ استاد نے غصے کی حالت میں طالب علم سے نقل کرنے کی وجہ پوچھی جس پر طالبعلم کو غصہ آیا اور استاد سے بدتمیزی کر کے کمرہ امتحان سے باہر نکلا اور کالج میں توڑ پھوڑ شروع کردی۔

خیر اس طالب علم کو تو اسی وقت خارج کرکے کالج سے نکال دیا گیا اور نکالنا بھی چاہئے تھا کیونکہ اگر ایک طالب علم کے دل میں استاد جیسی عظیم ہستی کی عزت نہیں ہوگی تو وہ پھر پڑھنے کا بھی کوئی حق نہیں رکھتا۔ اس واقعے کو سن کر میرے تو رونگھتے کھڑے ہوگئے کہ آخر یہ اتنی بدتمیزی اور غصہ کیوں ؟ ابھی ٹھہرئیے اسی طرح کے ایک اور رونگھٹے کھڑے کرنے والے خبر سے بھی آپ کو آگاہ کرتی ہوں۔ ضلع نو شہرہ میں میٹرک کے امتحان کے دوران کمرہ امتحان میں نقل نہ چھوڑنے کی وجہ سے ڈیوٹی دینے والے ٹیچر پر  سکول سے باہر حملہ ہوا اور اسے شدید زخمی کیا گیا۔ زخمی ہونے والے ٹیچر نے پولیس کو بیان دیا کہ حملہ آورں نے بتایا کہ حال میں سختی کیوں کی۔ نہایت افسوس کی بات ہے کہ طلباء کے دلوں سے استاد جیسی ہستی کی عزت و احترام ختم ہو گئی ہے۔ آخر یہ اتنے بھٹک کیوں گئے ہیں ؟اگر یہ استاد کی عزت نہیں کریں گے تو کیا یہ اپنی زندگی میں کامیاب ہو سکتے ہیں ؟ نہیں !کبھی بھی نہیں ،وہ طلباء کبھی ترقی کے منازل طے نہیں کر سکتے جن  کے دل میں استاد کی عزت نہ ہو۔

مجھے تو یہ سمجھ نہیں آرہی کہ آخر ان طلباء کو ہو کیا گیا ہے ؟ وہ طلباء آج کل کہاں ہیں جو استاد کا ایک چھوٹا سا کام کرکے دلی خوشی اور سکون محسوس کرتے تھے۔ استاد کے منہ سے نکلا ہوا تعریف کا ایک چھوٹا سا جملہ ان کے لیے ایک بڑے پہاڑ کی مانند ہوا کرتا تھا۔ استاد کا کوئی بھی کام کر کے یا ان سے تعریف کے دو بول سن کے وہ فخر محسوس کرتے تھے۔

مجھے آج بھی یاد ہے کہ میں جب جماعت نہم میں پڑھتی تھی تو ہر صبح میں اور میری سہیلی اپنی ٹیچر کا انتظار کرتی تھی کہ کب وہ آئینگی اور ہم ان سے ان کی چادر لے کر اس کو سمیٹ کر سٹاف روم کے ایک کونے میں رکھ دیں گے۔ اس کے ساتھ ساتھ ہم سہیلیو ں میں باقاعدہ اس بات پر لڑائی ہوا کرتی تھی کہ کون ٹیچر کے ساتھ کاپیاں سٹاف روم تک لے کے جائے گا۔ افسوس کے آج کل استاد کی وہ عزت اور احترام کہیں پر کھو گئی ہے۔

اگر ہم بات کرے ان وجوہات کے بارے میں کہ آخر کیوں آج کل کے طلباء استاد کی عزت نہیں کرتے، تو میرے خیال میں تو اس کی سب سے بڑی وجہ آج کل کے والدین کی تربیت ہے۔ جیسے کہ اگر اسکول یا کالج میں کسی بات پر استاد طالب علم کو ڈانٹے اور وہ گھر جا کر اپنے والدین سے استاد کی شکایت کرے تو ان کے والدین کا رویہ کچھ یوں ہوتا ہے کہ اس  استاد کی ہمت کیسے ہوئی میرے بچے کو ڈانٹنے کی۔ یہ کوئی گورنمنٹ سکول تو نہیں جہاں یہ استاد جو چاہے سلوک کرے۔ ان کو  تنخواہ ہمارے دیے ہوئے فیسوں  سے ملتی ہے۔ ہم کل ہی پرنسپل سے بات کرتے ہیں۔ اب آپ لوگ مجھے بتائیں کہ اس قسم کے جملے سن کر کیا وہ بچہ پھر استاد کی عزت کرے گا؟

اسی طرح ایک دوسری وجہ ہمارے نوجوان نسل کی سوشل میڈیا میں دلچسپی لینا اور وقت ضائع کرنا بھی ہے۔ آج کل کے نوجوان کے پاس اتنا وقت ہی نہیں کہ اپنے بڑوں کے ساتھ بیٹھے ان سے اچھے برے میں فرق اور استاد کی عزت کرنا سیکھے۔ بس ہر وقت موبائل اور سوشل میڈیا پر ہی لگے رہتے ہیں جو کہ وقت کے ضیاع کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں ہے۔

اس کے علاوہ ایک اور وجہ یہ بھی ہے کہ گھر والوں کی طرف سے بچوں پر زیادہ نمبرز لانے کا پریشر بھی ہے۔ والدین بچے کو کہتے ہیں کہ فلانے کے اتنے نمبرز ہیں تم نے بھی اتنے لانے ہے ورنہ اچھا نہیں ہوگا۔ بچہ پڑھتا ہے نہیں اور جب امتحان میں بیٹھتا ہے تو نقل کا سوچتا ہے ایسے میں اگر اس کو نقل سے روکا جاتا ہے تو وہ بدتمیزی شروع کردیتا ہے اور استاد کی عزت کو بھول جاتا ہے۔

لہذا آجکل کے طلباء کو اپنا رویہ بدلنا ہوگا۔  استاد جو کہ روحانی ماں اور باپ ہوتے ہیں ان کی عزت کرنی ہوگی۔  والدین کو چاہیے کہ اپنے بچوں کو استاد کی عزت کرنا سکھائیں تاکہ ان کے دلوں میں استاد کی عزت پیدا ہو جائے، کیوں کہ یہی استاد ہوتے ہیں جو لوہے کو کندن اور پتھر کو ہیرا بناتے ہیں ۔والدین کے بعد یہی استاد ہی تربیت کا وسیلہ ہوتے ہیں۔ اگر ہم واقعی اپنے بچوں کے بہتر مستقبل کے خواہش مند ہے  تو ہمیں خود بھی استاد کی عزت اور قدر کرنی چاہیے اور اپنے بچوں کو بھی اس بات کی درس دینی چاہیے۔

رعناز ٹیچر اور کپس کالج مردان کی ایگزام کنٹرولر ہیں اور صنفی اور سماجی مسائل پر بلاگنگ بھی کرتی ہیں۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button