انسان کب پانی کی بوند بوند کے لیے ترسے گا؟
ماریہ سلیم
پانی کرہ ارض پر بسنے والے ہر جاندار شے کی بنیادی ضرورت اور ان تک رسائی بنیادی حق ہے لیکن اس کے بے دریغ استعمال اور موافق منصوبہ بندی نہ ہونے کی وجہ سے انسان پانی کی قلت کا شکار ہوتے جارہے ہیں۔
پاکستان دنیا کے قیمتی ذخائز سے مالا مال ملکوں میں سے ایک ہے تاہم آبادی میں ہوشربا اضافے اور مناسب منصوبہ بندی نے ہونے کے باعث ان ذخائز میں نمایاں کمی سامنے آرہی ہے جن میں پانی کا بحران سرفہرست ہے۔
پانی ایک بے رنگ اور بغیر ذائقہ مائع انسانی زندگی کی اساس ہے لیکن خدشہ ہے کہ غذائی قلت کی طرح انسان آئندہ کچھ سالوں میں پانی کی بوند بوند کے لیے ترسے گا۔ ماہرین پانی کی قلت کی بنیادی وجہ ماحولیاتی آلودگی قرار دے رہے ہیں جبکہ اس سے پیدا ہونے والے مسائل پر ماہرین پہلے ہی آگاہ کرتے آرہے ہیں لیکن ہمارے کانوں پر جوں تک نہ رینگی۔ اب حالات یہ ہیں کہ ماہرین نے شدید خطرے کی گھنٹی بچا کر اعلان کردیا ہے کہ 2025 تک پاکستان سمیت دنیا بھر کے 17 ممالک کو پانی کی شدید کمی کا سامنا کرنا پڑے گا جس میں پاکستان 14 ویں نمبر پر براجمان ہے۔
ماہرین کے مطابق آبادی میں بے انتہا اضافے کے باعث فی کس پانی کی دستیابی کم سے کم تر ہوتی جارہی ہے کیونکہ زمین کے 70 فیصد پانی میں سے صرف دو اعشاریہ پانچ فیصد پانی پینے کے قابل ہے جس میں زیادہ پانی گلیشیر کی صورت میں موجود ہے۔
حالیہ تحقیقات کے مطابق پاکستان دنیا کے ان 20 ممالک میں شامل ہے جن کو معمول سے زائد بارشوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ایک جانب معمول سے ہٹ کر بارشیں اور دوسری طرف بارشوں کے باوجود زیرِ زمین پانی کے ذخائر کی مسلسل کمی ہماری آبی ذخائر کے حوالے سے ناکام منصوبہ بندی کا اعلانیہ ثبوت ہے۔ پاکستان نے گزشتہ سات دہائیوں میں پانی کو ذخیرہ کرنے کے لیے کوئی بڑا ڈیم نہیں بنایا جو کہ ہماری مستقبل کے لیے بے فکری اور غیر سنجیدگی ظاہر کرتا ہے جبکہ حالیہ وقت میں نئے ڈیموں کو تعمیر کرنا اولین ترجیح ہے تاکہ بارشوں کا پانی ضائع ہونے سے بچایا جائے۔
ایک اندازے کے مطابق پاکستان اس وقت تقریباً 90 فیصد پانی زراعت کے شعبے میں استعمال کرتا ہے کیونکہ ہماری معیشت کا زیادہ دارومدار زراعت ہر ہے لیکن پاکستان زرعی ملک ہونے کے باوجود زرعی ٹیکنالوجی میں پرانے فرسودہ طریقے کار اپنائے ہوئے ہے جس کی وجہ سے فصلوں کی کاشت میں تقریباً چالیس فیصد پانی بلاوجہ ضائع ہو جاتا ہے۔
پانی کا بحران معیشت کے سب سے بڑے شعبے کو خطرے میں ڈال رہا ہے جو کہ ملکی جی ڈی پی کا 60 فیصد بنتا ہے۔
پاکستان کے زیر زمین وسائل پانی کی فراہمی کا آخری سہارا ہیں لیکن بے دردانہ استعمال اور بے دریغ پمپنگ کی وجہ سے زیرِ زمین پانی کی سطح کم ہوتی جارہی ہے۔ خشک سالی میں بارشوں کی کمی کی وجہ سے آبپاشی کا انحصار ڈیمز میں جمع پانی پر ہوتا ہے اور مزید ضرورت نایاب پانی نکال کے پوری کرلی جاتی ہے جس سے واٹر ٹیبل کم سے کم ہوتا جاتا جا رہا ہے۔
ماحولیاتی تبدیلیوں سے رونما ہونے والے درجہ حرارت میں بتدریج اضافہ کی وجہ سے پانی تیزی سے بخارات میں تبدیلی کی وجہ سے سوکھتا جارہا ہے۔ کی پی سی آر ڈبلیو آر کی رپورٹ کے مطابق پاکستان دو ہزار پانچ میں ہی آبی قحط کی حد پار کر چکا ہے جبکہ اس کے باوجود پاکستان بغیر منصوبہ بندی کے پانی استعمال کرنے والے ممالک میں بھی شامل ہے۔
اب وقت آچکا ہے کہ واٹر ریگولیٹری اتھارٹی کو پانی کی مناسب تقسیم کرکے پانی کے ضیاع کو روکنا ہو گا کیونکہ واٹر مینیجمنٹ سے ان مسائل پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ دوسری جانب صوبوں اور وفاق کو آپسی اختلافات سائیڈ پر رکھ کر پانی کے مسلے کو سنجیدگی سے حل کرنے کے لیے زمین کے اوپر اور زیرِ زمین ذخائر کی حفاظت کے لیے بروقت اقدامات کرنے چاہیے اور ساتھ ہی بارش کا پانی جمع کرنے کے لیے تربیلا سائز کے ڈیم بنانے چاہیے۔
اس کے علاوہ ماحولیاتی تبدیلیوں سے رونما ہونے والے اثرات کو کم کرنے پر توانائی صرف کرنی چاہیے جس کے لیے درخت لگانا اشد ضروری ہیں۔ نیز جب تک لوگوں میں شعور اور آگاہی نہیں دی جائے گی تب تک پانی کا بچاؤ ممکن نہیں۔
میڈیا اور دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارم کے ساتھ سکولوں میں بچوں کو بھی پانی کی قلت جیسے مسائل سے نمٹنے کے لیے آگاہی دلانی چاہیے۔ پانی کی کمی کا مسئلہ حکومتی یا سیاسی مسلہ نہیں ہے جو صرف اداروں کو حل کرنا ہوگا بلکہ ہمیں انفرادی طور پر اپنا کردار ادا کرنا ہوگا اور صرف پانی کو احتیاط سے استعمال کرکے ہم کئی گیلن پانی کی بچت کر سکتے ہیں۔
یاد رہے کہ پانی کا بحران ایک سنجیدہ نوعیت کا مسئلہ ہے۔ پاکستان کو وقت کی آواز سنتے ہوئے پانی کی ایمرجنسی نافذ کرنی چاہیے اور اپنے بحران کو حل کرنے کے لیے بین الاقوامی اور قومی سطح پر عملی کام کرنا چاہیے اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے۔