جب ایک گرجتی آواز میں بچوں کی ننھی مسکراہٹیں کھو گئی
خوشبو
آج گرمی کی شدت زیادہ تھی۔ میں کام سے فارغ ہوکر کافی کا مگ اٹھائے بستر پر آ گئی۔ میرا بستر کھڑکی کے ساتھ منسلک تھا اور ہم اوپر والے پورشن میں رہائش پزیر تھے جہاں سے آسمان صاف دکھائی دے رہا تھا۔ میں چاند کی خوبصورتی اور خاموشی میں گم تھی کہ اچانک معصوم اور کھلکلاتی مسکراہٹوں نے مجھے اپنی طرف متوجہ کرلیا۔ یہ ان دو ننھے بچوں کی مسکراتی آوازیں تھی جو ہمارے نیچے والے پورشن میں رہتے تھے۔
اس پرسکون ماحول کا سکون اس وقت غارک ہوا جب ایک گرجتی اور زوردار مردانہ آواز نے بچوں کو چھپ رہنے کا حکم دے دیا۔ یہ ان بچوں کے والد صاحب تھے۔ ان بچوں کے والدین اکثر ایک دوسرے سے لڑتے تھے اور آج بھی ان میاں بیوی کے درمیان کسی بات پر بحث چل رہی تھی جو لڑائی جھگڑے تک پہنچ گئی۔ دونوں نے چیخنا چلانا شروع کردیا اور اس شور میں بچوں کی مسکراہٹیں کہی کھو گئی۔
ان والدین نے نہ صرف اس وقت بچوں کی رنگین مسکراہٹوں کو سہمی مسکان میں تبدیل کردیا بلکہ ان بچوں کی خود اعتمادی، آگے بڑھنے کی صلاحیت اور اپنے مسائل خود حل کرنے کی صلاحیت کو بھی ہمیشہ کے لیے دفن کردیا۔
بچے جب اس دنیا میں آتے ہیں تو ان کا ذہن خالی کاغذ کی طرح ہوتا ہے۔ ان کا انحصار بچے کے والدین اور گھر کے ماحول پر ہوتا ہے کہ وہ اس پر کیا تحریر کرتے ہیں اور یہاں سے بچوں کی شخصیت کا ڈھانچہ بنتا ہیں۔ اگر ان کی بنیادیں مضبوط ہو (والدین کے درمیان رشتہ ہر قسم کے انتشار سے پاک اور پیار اور محبت کی ڈوری میں بندھا ہو) تو بچے بھی مکمل شخصیت کے ساتھ معاشرے میں قدم رکھتے ہیں اور پر اعتماد طریقے سے ہر مشکل کا سامنا کرتے ہیں کیونکہ ایسے بچوں کو اپنی سمت اور صلاحیتوں کا پتا ہوتا ہے۔ اس کے برعکس اگر گھر میں ہر وقت انتشار، اختلاف رائے اور لعنت ملامت کا ماحول ہو تو ان گھروں کے بچے بہت سی نفسیاتی مسائل کا شکار ہوتے ہیں جیسے کے جارحانہ رویہ چھوٹی چھوٹی چیزوں پر پریشان ہونا، دوسرے بچوں کے ساتھ منفی رویہ رکھنا، تعلیمی مسائل، نیند کا نہ آنا یا ڈرونے خواب دیکھنا اور احساس کمتری ان بچوں کی شخصیت کا حصہ بن جاتی ہے۔
ایک ریسرچ کے مطابق اگر ایک سے تین سال کے بچے کے سامنے والدین لڑتے جھگڑتے ہوں یا گھر میں زیادہ تر انتشار کا ماحول ہوں تو ایسے بچے آہستہ آہستہ اس ماحول کے ساتھ عادی ہو جاتے ہیں اور اس کے منفی اثرات 8 سال کے عمر میں ظاہر ہونا شروع ہو جاتے ہیں جس کی وجہ سے ایسے بچوں میں اپنی باری کا انتظار کرنے، اپنے جذبات کو کنٹرول کرنے اور کامیابی سے اپنے مسائل حل کرنے کی صلاحیت نارمل بچوں کے مقابلے میں کم ہوتی ہے۔
اس کے علاوہ ایسے ماحول میں پلنے والے بچوں کے دوست بہت کم ہوتے ہیں۔ ان کا social circle بنسبت دوسرے بچوں کے کم ہوتا ہے. School activities میں بھی یہ بچے حصہ لینے سے ڈرتے ہیں کیونکہ ان بچوں میں ہارنے کا خوف زیادہ ہوتا ہے۔
نو عمری میں یہ بچے چھوٹی چھوٹی باتوں پر جلدی غصہ ہوتے ہیں اور اپنے دوست و احباب کے ساتھ ان کا رشتہ کمزور ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ منشیات، شراب نوشی اور ناجائز جسمانی تعلقات میں پڑنے کا بھی خطرہ ہوتا ہے. ان بچوں میں دس فیصد ایسے ہوتے ہیں جہنوں نے بچپن میں اپنی ماں کو مارتے پیٹتے دیکھا ہو وہ بھی جوانی میں اپنے جیون ساتھی کے ساتھ وہی سلوک کرتے ہیں۔
والدین کی چھوٹی سی غلطی بچوں کے معصوم ذہنوں پر بڑے زخم چھوڑ جاتے ہیں جو ساری زندگی نہیں بھرتے۔ اس لیے ضروری ہے کہ شادی شدہ جوڑوں کو بچے کی پیدائش سے پہلے اپنے آپس کے رشتے کو مضبوط بنانا چاہے اور اپنے آپس کے مسائل کو خود ہی حل کرنا چاہئے۔
گھر کے ماحول کو پیار اور محبت کا گہوارہ بنانے کی کوشش کرنی چاہئے، بچوں کے نظر میں ماں باپ دو مختلف انسان نہیں بلکہ ایک ہی شاخ کے دو پھول ہوتے ہیں۔ ان کے معصوم ذہن یہ کبھی بھی برداشت نہیں کر پاتے کے ان کے درمیان بھی لڑائی آسکتی ہے۔
غصہ انسان کی فطرت کا حصہ ہوتا ہے۔ اس لیے اگر ایک ساتھی غصہ میں ہے تو دوسرے کو صبر کا مظاہرہ کرنا چاہئے اور جب لگے کہ پہلے کا غصہ کم ہوگیا ہے تب اپنے نظریے کو پیش کرنا چاہئے اس طرح کرنے سے دونوں کے درمیان مسائل آسانی سے حل ہوں گے۔
شادی ایک ایسا بندھن ہے جس میں سمجھوتہ شرط ہے اس لیے ہمیشہ کوشش کریں کہ اپنے ذاتی اختلافات کو اپنے کمرے سے باہر ہرگز نہ لائیں اور نہ ہی کسی تیسرے کو درمیان میں لانے کی کوشش کریں کیونکہ ایسا کرنے سے مسائل بڑنے کا امکان زیادہ ہوتا ہیں۔ اگر آپس میں مسائل خود نہ حل نہ کر سکے تو کسی اچھے ماہر نفسیات سے رجوع کرنا چاہے جو آپ کے مسائل حل کرنے میں آپ کی مدد کرسکیں۔
خوشبو ایک ماہر نفسیات ہیں اور ٹی این این کے لیے مختلف موضوعات پر بلاگز لکھتی ہیں۔