سود ایک ناسور
رعناز
کل رات میں یوٹیوب پر ویڈیوز دیکھ رہی تھی۔ ویڈیو ز دیکھتے ہوئے میرے سامنے ایک ڈرامہ آیا۔ مجھے ویسے ہی شوق ہوا کہ کیوں نا یہ ڈرامہ ہی دیکھ لیا جائے۔ جیسے ہی میں نے ڈرامے کی پہلی قسط کھولی تو اس میں مجھے ہر طرف ہریالی اور پہاڑ نظر آئے یہ دیکھ کر مجھے اور بھی شوق چڑھا کہ میں یہ ڈرامہ دیکھوں کیونکہ مجھے ہریالی اور خوبصورت مناظر بہت اچھے لگتے ہیں۔
خیر یہ تو ہوئی میری پسند کی بات اب آتے ہیں ڈرامے کے موضوع پر جو کہ تھا سود۔ مجھے نہایت افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ سود جیسا ناسور دن بہ دن ہمارے معاشرے میں پروان چڑھ رہا ہے۔ دن بہ دن اپنی جڑیں مضبوط کرتا جا رہا ہےباوجود اس کے کہ اسلام میں سود حرام ہے، اس کی سخت ممانعت کی گئی ہے ۔ تو یہاں پر میں یہ سوال کرنا چاہتی ہوں کہ کیا ایک مسلمان کو یہ زیب دیتا ہے کہ اللہ کے حکم کی خلاف ورزی کرے؟ کیا سود کرنے والوں کو اللہ کے سامنے ایک دن پیش نہیں ہونا ؟کیا ان کا ضمیر ان کو اس گناہ کی اجازت دیتا ہے؟
اگر ہم سود کی اصلی معنوں میں تعریف کریں تو کسی کو اس شرط کے ساتھ رقم ادھار دینا کہ واپسی کے وقت وہ کچھ رقم زیادہ دے گا تو اسے کہتے ہیں سود۔ یہ ایک لعنت ہے لیکن بدقسمتی سے آج کل ہر دوسرا بندہ نہ صرف سود کے کاروبار میں ملوث ہے بلکہ اپنے اس برے کاروبار کو چھپانے کے لیے طرح طرح کے نام بھی رکھے ہیں جیسے کہ انٹرسٹ، مارک اپ وغیرہ۔ جہاں بھی دیکھتے ہیں جس کاروبار کو بھی دیکھتے ہیں اس میں کہیں نہ کہیں سود کا یہ ناسور ضرور موجود ہوتا ہے۔
مثلا اگر ہم گاڑیوں کے کسی بارگین میں جا کر دیکھیں تو ادھر بھی کھلم کھلا سود کا کام ہوتا ہے۔ جیسے کہ اگر ایک گاڑی کی قیمت دس لاکھ ہے تو بارگین کا مالک خریدنے والے سے کہے گا کہ اگر ایک سال میں پیسے پورے کرو گے تو دس لاکھ کے بجائے گیارہ لاکھ دینے پڑیں گے تو بھئی ادھربتائیں مجھے یہ سود ہوا کہ نہیں؟
اسی طرح اگر ہم غریب زمینداروں کی بات کریں تو اگر ایک کھاد کی بوری کی قیمت پانچ ہزار ہوتی ہے تو اس غریب کو سات ہزار دینے پڑتے ہیں کیوں ؟ کیونکہ اس وقت اس کے پاس پیسے نہیں ہوتے اور وہ کچھ وقت بعد یا قسطوں میں یہ رقم ادا کرنا چاہ رہا ہوتا ہے۔ کیا یہ انصاف ہے کہ ایک غریب کے بچوں کے منہ کا نوالہ چھینا جائے ؟کیا اپنا اسٹیٹس اچھا بنانے کے لیے اب مسلمان سود کریں گے؟
سود اتنا بڑا گناہ ہے کہ قرآن مجید میں شراب نوشی یا زناکاری کے لیے بھی وہ لفظ استعمال نہیں ہوئے جو سود کے لئے اللہ تعالی نے استعمال کئے ہیں لیکن پھر بھی اس سماج کو کون سمجھائے ،کون ان کو سود سے بچا کر راہ راست پر لے کے آئے۔
اگر ہم دیکھیں تو کسی حد تک اس کی ایک وجہ لاعلمی بھی ہو سکتی ہے کیونکہ بہت سارے لوگ سود کے متعلق شرعی رہنمائی نہ لینے کی وجہ سے لین دین یا کاروبار میں سودی معاملات کر رہے ہوتے ہیں اور حرام کے مرتکب ہوتے ہیں۔ اسی طرح سود کے بڑھنے کی ایک اور بڑی وجہ مال و دولت کا بڑھنا بھی ہے۔ زیادہ تر لوگوں کو مال و دولت کی لالچ اور حرص ہوتی ہے جو ان کو اللہ اور اس کے رسول سے بے پرواہ کر دیتی ہے۔ ان کے دل میں پیسے کی محبت بس جاتی ہے اور یوں وہ حرام اور حلال کی تمیز بھول جاتے ہیں۔
یہاں پر میں یہ بات بھی واضح کرنا چاہوں گی کہ کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو سود لینے یا دینے کو پسند نہیں کرتے لیکن وہ ایسے اداروں میں ملازمت کرتے ہیں جہاں سودی معاملات ہوتے ہیں۔ اب ان ملازموں کو جو کہ سود نہیں کرتے ان کو بھی ان سودی معاملات کو لکھنا اور آگے بھیجنا پڑتا ہے ۔لہذا ان کی تنخواہیں سودکے پیسے سے آتی ہیں۔ اس کے برعکس کچھ ادارے ایسے بھی ہوتے ہیں جہاں سودی معاملات تو ہوتے ہیں لیکن ملازموں کی تنخواہ براہ راست سرکاری خزانے سے آتی ہے کوئی سود کا پیسہ ان کے تنخواہوں میں شامل نہیں ہوتا لیکن پھر بھی ان لوگوں کو بے فکر نہیں ہونا چاہیے کہ ہم تو سود لیتے یا دیتے نہیں ہیں اس لیے ہم آزاد ہیں۔ نہیں! بلکہ یہ لوگ سودی کاروبار میں وسیلہ یا ذریعہ بن رہے ہیں جس کی وجہ سے وہ بھی گناہ میں شریک ہیں۔
غرض اس سودی نظام کو جڑ سے ختم کردینا چاہیے کیونکہ اس سے معاشی نظام تباہ ہو جاتا ہے اور دولت سمٹ کر چند ہاتھوں میں آ جاتی ہے۔ سود کی وجہ سے دنیا بھر کی معشیت نہایت غیرمتوازن ہو گئی ہے۔ کچھ لوگوں کے پاس دولت کے انبار ہیں اور بہت سے ایسے ہیں جنہیں ایک وقت کا کھانا تک نصیب نہیں ہوتا۔ اس لیے وطن عزیز کو سود کی لعنت سے پاک کر کے صحیح معنوں میں حقیقی اسلامی ملک بنانا چاہیے۔
رعناز ٹیچر اور کپس کالج مردان کی ایگزام کنٹرولر ہیں اور صنفی اور سماجی مسائل پر بلاگنگ بھی کرتی ہیں۔