نازیہ سلارزئی
بد قسمتی سے پاکستان اس وقت انتہائی افراتفری کا بری طرح سے شکار ہے۔ کبھی معاشی بدحالی کا رونا تو کبھی سیاسی افراتفری کا رونا اور افسوس کا مقام تو یہ ہے کہ حالات اس نہج سے واپس جاتے ہوئے نظرہی نہیں ارہے۔
پچھلے بیس سالوں سے پاکستان کی معیشت گویا کہ ایک ڈرِپ پر چل رہی ہے یعنی اس کو ایک ڈرپ اکانومی بھی کہا جا سکتا ہے۔
میں اگر اس کو خود سے مسلط کیے گئے حالات کہوں تو یہ غلط نہیں ہوگا کیونکہ بہت سالوں سے ناکام پالیسیاں اپنائی جا رہی ہے جس کے اثرات آج ہم کو معاشی بد حالی کی صورت میں دیکھنا پڑ رہے ہیں۔
گذشتہ تقریباً ڈیڑھ سال سے ہمارے سیاست دانوں کے درمیان سیاسی رسہ کشی جاری ہے جس کی وجہ سے مہنگائی کے ستائے عوام بمشکل اپنی زندگی کی گاڑی کھینچ رہے ہیں۔ مہنگائی تاریخ کی بلند ترین سطح پر اچکی ہے۔ کچھ معاشی ماہرین کے مطابق تو آنے والے مہینوں میں مزید اضافے کا امکان ہے۔
پچھلے سال 2022 کی گرمیوں میں ملک کا بیشتر حصہ سیلاب کی نذر ہو گیا۔ سنگین صورتحال تو یہ ہے کہ سیلاب متاثرین کی بحالی کے لیے پاکستان اپنے اپ کے بجائے دیگر ممالک کی جانب دیکھ رہا ہے کیونکہ معاشی بدحالی اس خستہ حالی میں ہے کے پاکستان کے پاس اس وقت ضروری درآمدات کے لیے بھی ڈالرز موجود نہیں ہے۔
اخر پاکستان اس نہج تک پہنچا کیسے؟ ہمارے سیاستدانوں نے تو قرضوں کے اتنے پہاڑ چڑھاۓ رکھے ہوئے ہیں جس سے پاکستان کا قرض ادا کرنا ایک خواب سا لگتا ہے۔
آئیں میں اپ کو زرا بتاؤں کہ پاکستان کا کل بیرونی قرضہ کتنا ہے کیونکہ معاشی بدحالی کی سب سے بڑی وجہ یہی ناسور قرض ہے۔ اسٹیٹ بینک کے حساب سے پاکستان کا مجموعی قرض 55 ہزار 800 ارب روپے ہے جس کی وجہ سے ڈالر میں بھی اضافہ ہوا ہے۔
غربت و افلاس کے ستایئں عوام کیا اپ کو پتہ ہے کہ اپ بھی قرض لیۓ بغیر مقروض ہے۔ اب سنیئے زرا غور سے کہ اخر اپ کتنے مقروض ہے؟ اسٹیٹ بینک کے مطابق اگر اپ چاہے یا نا چاہے پاکستان کا ہر فرد واحد سوا دو لاکھ روپے کا مقروض ہے۔
اب اگر حکومت نے معاشی بحران سے نکلنے کے لیے قرض ادا کرنا بھی ہے تو پیسے تو ہے ہی نہیں اور قرض دینے والے ممالک کی معافی نہیں۔ قرض ادا کرنے کے لیے کسی اور ملک سے قرض لیا جاتا ہے جو معاشی بد حالی کو مزید خوش امدید کہتا ہے۔
ہر سال معشی بدحالی کا شکار پاکستان تجارتی خسارے میں جا رہا ہے۔ دیگر ممالک سے زیادہ چیزیں خریدتا اور انھیں کم بیچتا ہے۔ سب سے اہم وجہ درآمدات کی زیادتی اور برآمدات کی کمی ہے جس کے نتیجے میں بیلنس آف پیمنٹ مساوی نہیں رہتا ہے۔
پاکستان کے موجودہ حالات کا ذمہ دار اخر ہے کون؟ پاکستان کو اس نہج تک پہنچانے میں سب سے بڑا ہاتھ بیروکریسی اور ملک کی اشرافیہ کے غلط فیصلوں کا ہے۔
ان حالات کے ذمہ دار ہمارے سیاستدان ہی ہے۔ سیاسی جماعتیں اپنی جان چھڑا ہی نہیں سکتے ہیں۔ اگر اس ملک میں اصلاحات نہیں کی گئی یا بیوروکریسی ٹھیک نہیں کی گئی تو سیاستدانوں کے اوپر ہی ذمہ داری عائد کرنا صحیح ہوگا۔
نالائق حکمران اگر حکومت میں آئینگے تو اس سے معاشی بحران جنم لیتا ہے۔ کیا کیا ہمارے ساتھ نہیں ہوا، سانحہ مشرقی پاکستان ہوا، پھر ملک میں مارشل لا کا لگ جانا پھر سیاستدانوں کو جلا وطن کر دینا اور اب کی سیاسی صورتحال دیکھی جائے تو یہ بھی کوئی اچھائی کی طرف دیکھتے نظر نہیں ارہے ہیں مگر ہم نے کسی دور میں بھی سبق نہیں سیکھا اور اب بھی وہی کی وہی خستہ حالی کی صورتحال ہے۔
بدقسمتی سے اس وقت آئی ایم ایف جو بھی کہہ رہا ہے وہ چپ چاپ مانا جا رہا ہے کیونکہ کمزور معیشت کی وجہ سے ہم مجبور جو ہے۔
میں تو تعجب میں تب چلی گئi جب مجھے پتہ چلا کہ پچھلے بیس سالوں میں کسی بھی سیاسی جماعت یا ماہرِ معاشیات نے کوئی حل نہیں نکالا اور نہ ہی کوئی کارامد بحث ہوئی ہے۔ اج تک معاشی بد حالی پر کوئی بیانیہ نہیں بنا ہے تبھی تو ہم اس مقام پر کھڑے ہے۔
یہ کوئی پہلی بار نہیں ہے کہ پاکستان دیوالیہ ہونے کے قریب تر ہے۔ چیلنجز کافی بڑھ گئے ہیں۔ کچھ کرنا ہے تو آج کریں اس سے پہلے کہ دیر ہو جائے۔ ایسی پالیسی بنائی جائے جو برسوں چل سکیں۔ یہ عارضی اقدامات محض ایمرجنسی کے صورتحال میں چل سکتے ہیں دیرپا اور کامیاب عمل نہیں۔
معاشی استحکام کے لیے واضح اور اجتماعی پالیسی بنانے کی ضرورت ہے۔ ایک فرد پاکستان کی معیشت کا حل نہیں نکال سکتا۔ تمام سیاستدانوں کو مل کر یہ کام کرنا ہو گا کیونکہ یہ کسی ایک سیاسی جماعت کا کام نہیں ہے۔
ایسے ماہرِ معاشیات کو جو تمام سیاسی جماعتوں اور حلقوں کے ساتھ بیٹھ کر معیشت کو بحران سے نکال سکے۔ ہر صوبے و طبقے سے ان کی نمائندگی ہو تاکہ پورے پاکستان کی معاشی صورتحال بہتر ہو۔
سیاستدانوں کو ایک دوسرے کے ساتھ اپنے زاتی مفادات کی پرواہ کیے بغیر مل بیٹھنا چاہیۓ۔ ایک دوسرے کو گالی دینے کے بجائے دوستی کا ہاتھ بڑھانا چاہییۓ تاکہ کوئ کارامد اور دائمی حل نکل سکے۔
آخر ہم کب تک اس معاشی بحران سے نجات پائینگے؟
نازیہ سلارزئی اکنامکس گریجوئیٹ اور بلاگر ہے