تحریر: رعناز
"تین دن یہ عمل کرے انشاء اللہ آپ کا محبوب آپ کے قدموں میں ہو گا "۔ آج کل ہر دوسرے چینل اور سوشل میڈیا پیجز پر جعلی پیروں کا یہ اشتہار چلتا رہتا ہے، ان جعلی پیروں کے یہ اشتہارات جگہ جگہ دیواروں پر بھی لکھے ہوتے ہیں، اسی طرح ہر ہفتے کسی نہ کسی چینل پر ان جعلی پیروں اور عاملوں کی کرتوتوں کے حوالے سے پروگرام بھی چل رہا ہوتا ہے۔
یہ جاہل اور علم سے بے خبر جعلی پیر غیبی طاقتوں یا کرشمہ سازی کے دعوے دار ہوتے ہیں اور یہ پیر اس گھناونے عمل کا تعلق کسی طریقے سے دین اور اسلام سے جوڑتے ہیں جس کی وجہ سے جاہل اور لاعلم لوگوں کی بڑی تعداد ان کو اسلام کا ولی سمجھتے ہوئے ان کے مرید بن جاتے ہیں۔ یہاں پر میں یہ سوال کرنا چاہوں گی کہ کیا اکیسویں صدی میں رہنے والے لوگ بھی اس قدر تو ہم پرستی کا شکار ہو سکتے ہیں؟ کیا ان کو یہ احساس نہیں ہوتا کہ ان جعلی پیروں کے پاس جانے کے نتائج کتنے بھیانک ہو سکتے ہیں؟ آخر وہ کون سی وجوہات ہیں جس کی وجہ سے لوگ دھڑا دھڑ ان جعلی پیروں کے آستانوں کا رخ کرتے ہیں اور ان لوگوں کی بدولت ان کے یہ آستانے آباد ہے۔ افسوس اور نہایت افسوس کی بات ہے کہ ان جعلی پیروں اور عاملوں کے جال میں پھنسنے والوں میں خواتین پیش پیش ہوتی ہیں۔
گھریلو جھگڑوں سے نجات، شوہر کو اپنی طرف کرنے ،محبوب کو اپنے قدموں میں لانے ،مقدمہ بازی، کاروبار کو چلانا، اولاد کی خواہش ، بیرون ملک رہائش اور اسی طرح کے دیگر مقاصد کو پورا کرنے کے لیے خواتین کی بڑی تعداد ان جعلی پیروں فقیروں کا رخ کرتی ہیں لیکن بدلے میں انکو پیسوں اور وقت کے ضیاع کے علاوہ کچھ نہیں ملتا۔
یہ جعلی پیر ان کے مسائل کو جڑ سے ختم کرنے کا جھانسہ دے کر ان سے بھاری رقم یہاں تک کہ ان کے زیورات تک بٹور لیتے ہیں ۔ہمارے معاشرے کی سادہ اور حالات سے مجبور اور مایوس خواتین ان کی چکنی چپڑی باتوں میں آکر اپنا سب کچھ ان کو دے دیتی ہیں، مسائل کے حل کے لالچ میں اپنی ساری جمع پونجی ان کے حوالے کر دیتی ہیں، مال و دولت سے محرومی کے ساتھ ساتھ کئی خواتین عزت سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتی ہیں۔
کچھ دنوں پہلے مجھے نیوز میں سننے کو ملا کے صوبہ پنجاب کے شہر گوجرہ میں جعلی پیر نے جن اتارنے کے بہانے لڑکی کو مبینہ زیادتی کا نشانہ بنا ڈالا، اسی طرح کچھ عرصہ پہلے ایک چینل پر پروگرام میں ایک افسوسناک اور حیرت انگیز منظر دیکھنے کو ملا ، جس میں جعلی پیر گرم سلاخوں سے ایک خاتون کو داغ رہا تھا پروگرام کے میزبان کے پوچھنے پر جعلی پیر نے جواب دیا کہ ان داغوں سے اس اولاد سے محروم خاتون کے ہاں اولاد ہو جائے گی واہ !کیا عمل ہے اور ہم لوگ کتنے بے وقوف بن چکے ہیں۔
ملک میں جعلی پیروں کے ہاتھوں ہونے والے یہ واقعات تسلسل کے ساتھ پیش آرہے ہیں، ان جعلی پیروں نے مذہبی عقیدت اور روحانیت کی آڑ میں ایک کاروبار شروع کر رکھا ہے۔ یہ اپنی دکانداری بڑے ہی شاندار طریقے سے چلا رہے ہیں۔ مجھے نہایت افسوس کے ساتھ یہ بات کرنی پڑ رہی ہے کہ ان کے اس کاروبار کو چلانے والا کوئی اور نہیں بلکہ ہمارے معاشرے کی وہ خواتین ہیں جو اپنے مسائل کے حل کے لئے اپنا سارا مال و دولت ان جعلی پیروں فقیروں کے ہاتھ میں دے دیتی ہیں، مطلب ہم اپنی تباہی کے خود ذمہ دار ہیں۔
یہ جعلی پیر پیر نہیں بلکہ معاشرے میں ناسور ہے، یہ پیری فقیری کے نام پر ایک بدنما داغ ہے۔ ایسے لوگوں کا اسلامی تعلیمات سے دور دور تک کوئی تعلق یا واسطہ نہیں ہے، یہ صرف اور صرف دولت کمانے کا ایک دھندا ہے جو کہ دولت کمانے کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں، کسی بھی حد تک گر سکتے ہیں یہاں تک کہ لوگوں کی جان بھی لے سکتے ہیں لہذا ان جعلی پیروں جیسے ناسور کو اس معاشرے سے ختم کرنا ہوگا، ان کے خاتمے کے لیے حکومت کو فوری اقدامات کرنے ہونگے کیونکہ یہ لوگ دین سے نابلد ہے ان کا مقصد صرف دولت کمانا ہے یہ لوگ تو خود دین اسلام سے ناواقف ہیں تو یہ دوسروں کو کیا سیدھا راستہ دکھائینگے اور کیسے ان کے مسائل کو حل کریں گے، لہٰذا ان کو احتساب کے کٹہرے میں کھڑا کرنا ہوگا تاکہ ان کا خاتمہ ممکن ہوسکے اور غریب عوام کو انکے دھوکے سے بچایا جاسکے۔ یہاں ایک اور بات بھی کرنا چاہوں گی کہ انکے خاتمے میں زیادہ کردار خواتین ادا کرسکتی ہیں لہذا وہ بھی عہد کریں کہ آئندہ کسی بھی مسئلے کے حل کے لیے ان جعلی پیروں کا رخ نہیں کریں گی۔
رعناز ٹیچر اور کپس کالج مردان کی ایگزام کنٹرولر ہیں اور صنفی اور سماجی مسائل پر بلاگنگ بھی کرتی ہیں۔