‘ماں آپ ہمیں چھوڑ کر کیوں چلی گئی؟’
سلمیٰ جہانگیر
"امی کہاں ہے” گھر داخل ہوتے ہی سلام کے بعد ہم سب بہن بھائیوں کا پہلا جملہ یہی ہوتا تھا اور ہماری ماں سامنے آتے ہی ہنس کر وعلیکم السلام کہہ کر ماتھے پر چھومتی جس سے ہمارا دن بھر کی تھاوٹ ختم اور دل کو سکون ملتا تھا۔
آج پاکستان سمیت پوری دنیا میں ماؤں کا عالمی دن منایا جا رہا ہے جس کا مقصد اپنی ماں کے ساتھ بے انتہا محبت اور ان کی اہمیت کا اظہار کرنا ہے۔
اس دن کی مناسبت سے میں یہ کہوں گی کہ ہر ماں کی اہمیت ان کے بچوں کے لیے بہت زیادہ ہے لیکن میری ماں بہت مختلف تھی۔ ان کے بارے میں اگر میں لکھنا شروع کردوں تو دنیا کی سیاہی کم پڑ جائے گی اور میرے الفاظ ختم ہو جائیں گے لیکن میں ان کی محبت اور عقیدت کا قرض کبھی نہیں اتار سکوں گی۔ میرے نزدیک ان کی طرح اس دنیا میں کوئی بھی نہیں ہو سکتا جبکہ اگر میں لاکھ کوشش کروں تب بھی میں اپنی امی کی طرح نہیں بن سکوں گی کیونکہ ان کی طرح کوئی بھی نہیں۔
میری ماں ہماری محافظ اور ایک بہترین دوست تھی. ماں ایک بے لوث، محبت کرنے والا انسان ہوتا ہے جسے اپنے بچوں کی خواہشات اور ضروریات کے لیے اپنی بہت ساری خواہشات اور ضروریات کو قربان کرنا ہوتا ہے۔ میری ماں نے ہمیشہ ہی ایسا کیا گھر میں کوئی بھی کھانا بچتا تو میری ماں یہ کہہ کر اس کو ضائع ہونے سے بچاتی کہ یہ مجھے پسند ہے۔
محافظ ایسے تھی کہ اگر ہمیں خواب میں بھی ڈر لگتا تو ہماری چیخ میں ماں کا نام ہوتا اور وہ پیار سے کہتی میں ہوں نا کچھ بھی نہیں ہے اور اس وقت ان کی آواز سن کر یوں لگتا جیسے ہمیں بہت بڑا تحفظ مل گیا ہو۔ 2021 میں ماں کے عالمی دن پر ہم سب بہن بھائیوں نے پروگرام بنایا کہ اس سال ہم بھی دوسرے لوگوں کی طرح یہ دن مناتے ہیں۔
درحقیقت ہمارے لیے یہ دن منانا کوئی خاص بات نہیں تھی کیونکہ ہم سب کے لیے ہر دن ماں کا دن ہوتا تھا اور ہم کچھ نا کچھ ضرور کرتے تھے لیکن اس دن خاص طور پر ہم امی کو باہر گھمانے کے لئے لے گئے ان کو ان کی پسند کی شاپنگ کروائی، ہم نے اپنے بچپن کی بہت سی باتیں امی سے سنی اور آخر میں رات کا کھانا کھا کر گھر واپس آئے۔
یہ دن ان کے لیے اور ہمارے لیے زندگی کا یادگار دن تھا وہ بہت خوش تھی اور بہت فخریہ انداز میں مسکرا رہی تھی ان کی مسکراہٹ دیکھ کر مجھ میں من خون دوڑتا اور دل کو سکون محسوس ہوتا لیکن ہم میں سے کسی کو یہ علم نہیں تھا کہ ہماری یہ خوشی چند مہینوں کی مہمان ہے کیونکہ یہ دن ان کی زندگی میں دوبارہ ہم نہیں منا سکیں گے اور میری امی ہمیں ان حسین یادوں کے سہارے چھوڑ کر ستمبر کے مہینے میں اس دنیا سے رخصت ہوگئی۔
میری پیاری ماں کے اس دنیا سے رخصت ہو جانے کے بعد دو دفعہ یہ دن آیا اور ان کے اس دن کی یاد تازہ ہوگئی جو انہوں نے آخری دفعہ ہمارے ساتھ بہت خوشی سے منایا تھا۔
آج بھی صبح ہم سب اپنی ماں سے ملنے ان کے گھر قبرستان گئے اور ادھر بیٹھ کر ان سے کافی باتیں کی، کچھ پرانی یادیں تازہ کر کے آنکھوں سے بے شمار اشک زمین پر گر پڑے۔
دوسری طرف اگر دیکھا جائے تو ابھی کچھ ایسے بدنصیب لوگ ہیں کہ جن کو نا تو اس دن کی اہمیت کا اندازہ ہے اور نا ہی ان کو اپنی ماؤں کے ساتھ برا سلوک کرنے پر کوئی افسوس ہے۔ یہ ایسے بد بخت ہوتے ہیں جو ماں کی زندگی میں ان کو بہت دکھ دیتے ہیں۔
میں نے ایسے لوگوں کو بہت نزدیک سے دیکھا ہے اور ان کی اپنی ماؤں کے لیے لاپرواہی پر افسوس کے سوا کچھ نا کر سکی۔
چند دن پہلے ہمارے پڑوس سے ایک آنٹی روتی ہوئی آئی ان کے بیٹے نے ان سے اس بات پر لڑائی کی تھی کب تم سے میری جان چھوٹے گی تاکہ میں اس گھر کو بیج سکوں،کب تک میرے سر پر بیٹھی رہوگی۔
ایک اور ماں نے روتے ہوئے یہ فریاد کیا کہ انہوں نے اپنی جوانی ان بچوں کے لیے قربان کی وہ لوگوں کے گھر جا کر کام کرتی اور دن رات محنت کرتی تاکہ ان کے بچوں پر کوئی آنچ نا آئے لیکن اب باپ کے مرنے کے بعد بچوں نے ان کو گھر سے نکال دیا۔
یہ سب سن کر اور دیکھ کر یقین نہیں آتا کہ کیا بچے ایسے بھی ہوتے ہیں۔ اس وقت میرے منہ سے ایک "کاش” کا لفظ نکلا کہ ماں آپ کیوں اتنی جلدی چلی گئی۔ میں نے تو آپ کے ساتھ بہت وقت بتانا تھا، ابھی تو میں نے آپ کی محبت میں بہت کچھ کرنا تھا۔
واضح رہے کہ ماؤں کے عالمی دن کا آغاز امریکی خاتون نے 1914 میں کیا تھا اور اب یہ دن پوری دنیا میں ماؤں سے محبت اور عقیدت کے نام سے منسوب ہے۔ پاکستان میں بھی اس دن کو منانے کی اہمیت اب عام ہونے لگی ہے اور ہر طرف بچوں کی یہی کوشش ہوتی ہے کہ وہ اپنی ماں کے لیے کچھ ایسا کریں کہ وہ یادگار لمحہ بن جائے۔