بلاگزتعلیم

کیا میرا کوئی بچپن نہیں؟          

 

 سندس بہروز         

پرسوں چھٹی کے وقت ایک سکول کے پاس سے گزر ہوا تو کیا دیکھتی ہوں کہ چھوٹے چھوٹے ننھے بچے اپنے کندھوں پر بستوں کے بھاری بوجھ لیے سکول سے نکل رہے تھے، مشکل سے ان کی عمر چار سے پانچ سال ہوگی، مجھے لگتا تھا کہ بچے اس عمر میں سکول سے چہکتے ہوئے نکلیں گے اور دوڑتے ہوئے ماں باپ کے لگیں گے مگر حقیقت اس کے برعکس تھی، ان ننھے ننھے  پھولوں کے چہرے مرجھائے ہوئے تھے اور ان کی چال سے ان کی تھکن نمایاں تھی۔ ایک بچے کی ماں سے بات کر کے پتہ چلا کہ نرسری کے بچوں کی تقریبا آٹھ کتابیں ہیں یہ سن کر تو مجھے حیرت کا وہ دھچکا  لگا کہ خدا کی پناہ اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا یہ بچے جن کی عمر  کھیلنے کودنےکی ہے، اس بوجھ کو سہہ سکتے ہیں؟ اس بچے کی ماں نے مجھے بتایا کہ یہ ہر صبح سکول نہ جانے کی ضد کرتا ہے اور پھر روٹھ کر کچھ کھائے پیے بنا سکول چلا جاتا ہے، وہ اپنے بچے کے اس رویے سے بیزار  تھی مگر معاملے کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش انہوں نے بھی نہیں کی۔

ظاہر سی بات ہے کہ بچہ کھیلنا چاہتا ہے وہ پڑھنا بھی چاہتا ہے مگر اتنی زیادہ کتابوں کے بوجھ کو وہ نہیں سنبھال سکتا۔ سکول سے واپس آکر بھی وہ گھر کے کام اور مدرسے کی وجہ سے کھیل نہیں پاتا۔ رات کو وہ اتنا تھک چکا ہوتا ہے کہ وہ بس سونا چاہتا ہے۔ ایسے میں اس بچے کا یہ پوچھنا تو بنتا ہے کہ کیا میرا کوئی بچپن نہیں؟

بات صرف ان ننھے پھولوں کی نہیں ہے، ہمارا تعلیمی نظام ایسا ہوگیا ہے کہ ہر طالب علم پڑھائی اور کتاب سے بیزار ہے۔ کیونکہ آج کل کے طالب علم کی زندگی میں صرف کتاب ہی ہے مگر زندگی صرف اس کا نام تو نہیں۔ جیسے ہمارے دور میں ہوتا تھا کہ بچپن میں صرف تین کتابیں ہوتی تھیں پھر چوتھی اور پانچویں جماعت میں پہنچ کر ہماری درسی کتابوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا تھا اور گھر کا کام بھی تھوڑا ہوتا تھا، اسی لیے ہم نے اپنا بچپن خوب کھیل کود میں گزارا، خوب شرارتیں کی اور ان سے خوب سیکھا، ہمیں تو گرمیوں کی چھٹیوں کا کام بھی بہت کم ملتا تھا جس کی وجہ سے ہم خوب سیر سپاٹے کرتے مگر آج کل کے بچے اس سے بھی محروم ہیں۔

اس بچے کی ماں نے مجھے بتایا کہ ان کی بڑی بیٹی کے بورڈ کے امتحانات ہو رہے ہیں اور وہ سخت ٹینشن میں ہے۔ میں یہ سن کر بھی افسردہ ہوئی کہاسکول کی چھٹی شام میں چھ یا سات بجے ہوتی ہے۔ شام تک سکول میں رہ کر ان سے سارا کورس یاد کروایا جاتا ہے مگر پھر بھی وہ بچی مطمئن نہیں، حیرت کی بات ہے۔ یعنی آج کل کے تعلیمی ادارے  تعلیمی ادارے کم اور پریشر کوکر زیادہ بن گئے ہیں۔ تربیت دینا تو پہلے ہی تقریبا چھوڑ چکے ہیں مگر بچوں کو ذہنی دباؤ کا شکار کرنا کہاں کا انصاف ہے۔ اب تو یہ ٹرینڈ بن چکا ہے کہ جتنے بھی سکولوں میں بورڈ کی جماعتیں ہیں اور سب ان کو شام تک سکول میں میں رکھ کر ان سے کام یاد کرواتے ہیں، نہ توان سکولوں میں تقریری مقابلے ہوتے ہیں نہ نعتیہ اور نہ ہی کوئی کھیل کے مقابلے جس سے بچے کو کتابوں سے بڑھ کر بھی کچھ سیکھنے کا موقع ملے، بس بچوں کو نمبروں کی دوڑ میں ڈال دیا ہے۔

میں یہ نہیں کہتی کہ پڑھنا یا پڑھانا بالکل ہی غلط ہے مگر ہر ایک چیز کی ایک حد ہوتی ہے وہ رومی کا ایک مشہور قول ہے کہ ہر چیز اپنی حد سے زیادہ ہو تووہ زہرہوتی ہے ترقی کے اس دور میں اگر بچوں کو ترقی یافتہ دنیا کیلئے تیار کرنا ہے تو ان سے  پریکٹیکل کام کروائیں۔ ان سے مختلف قسم کی ہم نصابی سرگرمیاں کروائیں تاکہ ان کی بہت سی دوسری خصوصیات بھی سامنے آسکے، بچوں کو ذہنی مریض بنانے کی بجائے ان کی ذہنی اور جسمانی نشونما پر توجہ دی جائے۔

کیا آپ کو بھی لگتا ہے کہ آجکل کے بچوں سے ان کا بچپن چھن گیا ہے؟

سندس بہروز ایم فل انگلش لٹریچر کی طالبہ ہے اور سماجی موضوعات پر بلاگ بھی لکھتی ہیں۔                 

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button