اقبال مسیح: مزدوروں کا ننھا ہیرو
رعناز
بہت دنوں سے سوچ رہی تھی کے کیوں نا مزدوروں کے عالمی دن پر کچھ لکھ ڈالوں لیکن کچھ سمجھ ہی نہیں آ رہا تھا کہ مجھے کون سے اینگل سے اس عنوان پر لکھنا چاہیے۔ اچانک سے میرے ذہن میں اقبال مسیح کی کہانی آئی۔ اقبال مسیح بھی ایک مزدور تھا مگر وہ اور مزدوروں کی طرح ذہنی غلام نہیں تھا۔ اس نے نہ صرف اپنی جسمانی غلامی سے آزادی حاصل کی بلکہ اس کے ساتھ ساتھ ذہنی غلامی سے بھی چھٹکارہ حاصل کیا۔
اقبال مسیح چار سال کا تھا جب فیکٹری کے مالک نے زبردستی اسے ماں کی جگہ کام پر لگا دیا۔ اقبال کی ماں نے فیکٹری کے مالک سے چھ سو روپے قرض لیا تھا جو وہ پھر اپنی بیماری کی وجہ سے ادا نہ کر سکی اور بدلے میں اقبال کو فیکٹری کے مالک کے حوالے کرنا پڑا۔ یوں اس معصوم بچے نے اتنی چھوٹی عمر میں زندگی کا بدصورت رخ جھیلنا شروع کیا لیکن وہ بھی ان لوگوں میں سے نہیں تھا جو مظلوم بن کے ظالم کے ظلم و ستم کو برداشت کریں۔
ریڈیو پر جبری مشقت کے خاتمے کے اعلان کے ساتھ ہی اقبال بھاگ کر مظاہروں میں شریک ہو گیا۔ ایک فلاحی تنظیم نے اسے اپنی آغوش میں لیا۔ اقبال نے دس سال کی عمر میں بچوں کی آزادی کی پہلی تحریک کی بنیاد رکھی اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس نے دس سرمایہ داروں کی فیکٹریوں اور بھٹوں سے تقریباً تین ہزار بچوں کو آزاد کیا لیکن اس ننھے ہیرو کو 12 سال کی عمر میں گولیوں سے بھون کر ہمیشہ کی نیند سلا دیا گیا۔
لیکن وہ کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ ہمیشہ زندہ رہنے کے لیے بہت زیادہ جینا ضروری نہیں۔ یہ بات خوب جچتی ہے اقبال مسیح کی زندگی پر جس نے صرف 12 سال کی زندگی پائی۔ لیکن دنیا کے کئی ممالک میں ابھی بھی اس کے مجسمے نصب ہیں۔ اقبال کو پوری دنیا میں مختلف اعزازات سے نوازا گیا اور بہت سارے تعلیمی ادارے آج بھی اس کے نام سے منسوب ہیں۔
مزدور ہمارے معاشرے کا ایک اہم حصہ ہے۔ یہ اپنی محنت سے وہ کارنامہ سر انجام دیتے ہیں کہ جس کو دیکھ کر عقل دنگ رہ جائے۔ لیکن مجھے نہایت افسوس کے ساتھ یہ بات کرنی پڑ رہی ہے کہ باوجود اتنی محنت کے نہ تو ان کو ان کا پورا حق دیا جاتا ہے اور نہ ہی ان کی محنت اور لگن سے کئے گئے کام کو تسلیم یا سراہا جاتا ہے۔ اگر ہم فیکٹریوں میں دیکھیں تو آٹھ گھنٹے کی جگہ دس اور بارہ گھنٹے کی ڈیوٹی ان سے لی جاتی ہے اور پھر بھی اگر وہ اپنا حق مانگتے ہیں تو مالک کو ایسا لگتا ہے جیسے انہوں نے کوئی بہت بڑا گناہ کر لیا ہو۔ باوجود اس کے کہ ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ مزدور کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے ہی اس کو مزدوری دے دو۔
اسی طرح اگر ہم دیکھیں ان مزدوروں کو جو بھٹہ خشتوں میں کام کرتے ہیں تو وہ ان کے بچوں سمیت مالکان کے مقروض ہوتے ہیں۔ وہ لوگ وہاں غلاموں کی طرح زندگی گزارتے ہیں۔ دس یا بیس ہزار روپے قرض کے عوض وہ سال در سال کام کرتے رہتے ہیں صرف اور صرف اس آس پر کہ کبھی نہ کبھی تو یہ قرض ختم ہو جائے گا اور ہم غلامی کی زندگی سے چھٹکارا پا لیں گے۔ لیکن ان کو کیا خبر کہ اس معمولی سی رقم میں نہ صرف وہ غلام ہیں بلکہ ان کے بچے اور آنے والی نسل بھی غلامی کی زندگی گزارے گی۔
اگر ہم دیکھیں تو ہمارے ملک کے بڑے بڑے سرمایہ دار جو بڑی بڑی رقم زکوۃ اور خیرات کے نام پر دیتے ہیں کیا ان سرمایہ داروں کو یہ نہیں سوچنا چاہیے کہ اس رقم سے ان غریب مزدوروں کو آزاد کرنا چاہیےجو بھٹہ خشتوں میں غلامی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ اگر ایک غلام مزدور اپنے مالک کے قید سے آزاد ہو گا تو اس کے بچے بھی آزاد ہوں گے۔ اگر وہ بچے آزاد ہوں گے تو وہ تعلیم حاصل کر لیں گے، آزاد زندگی گزار لیں گے اور پڑھ لکھ کر معاشرے کے بہترین افراد بن جائیں گے۔
لیکن یہ ہمارے معاشرے کی ایک تلخ حقیقت ہے کہ اگر اعلی طبقے والے لوگ ان مزدوروں غلاموں کو آزاد کریں گے تو پھر ان کی غلامی کون کرے گا کیونکہ ہمارے معاشرے میں تو مزدور ابن مزدور والا نظام ہے، مزدور کا بچہ مزدور ہی رہے گا اور خان اور امیر کا بچہ خان اور امیر۔ لہذا ہمارے معاشرے کے امیر طبقہ کو یہ سوچنا چاہیے کہ مزدور بھی ایک انسان ہے، اس کے بچے کو بھی پڑھنے لکھنے کا حق حاصل ہے۔ لہذا ان غلام بچوں کو آزاد کرنا چاہیے تاکہ وہ بھی پڑھ لکھ کر اس معاشرے میں ایک اہم کردار ادا کر سکیں۔
رعناز ٹیچر اور کپس کالج مردان کی ایگزام کنٹرولر ہیں اور صنفی اور سماجی مسائل پر بلاگنگ بھی کرتی ہیں۔