کیا زکوٰۃ ٹیکس ہے؟
سعدیہ بی بی
پچھلے دنوں ایک دوست نے ایک ویڈیو کلپ ارسال کیا جس میں ایک مفتی نما شخص کسی ٹی وی چینل پر بتا رہے تھے کہ زکوٰۃ بھی ٹیکس ہے، اگر کسی نے اتنا ٹیکس ادا کر دیا جتنی اس پر زکوٰۃ واجب تھی تو اس کی زکوۃ ادا ہو گئی۔
میں اس وقت سے گہری سوچ میں گم ہوں کہ یہ ٹی وی سکالر ایسی باتیں نجانے کس طرح کر جاتے ہیں اور ان کی زبانوں پر ذرہ برابر بھی لکنت ظاہر نہیں ہوتی، گویا قرآن کی کسی آیت کریمہ کا ترجمہ کر رہے ہیں یا پھر امت کے اجماع پر لب کشائی فرما رہے ہیں۔
اگر شریعت کی روشنی میں دیکھا جائے تو زکوٰۃ بالکل بھی ٹیکس نہیں ہے بلکہ یہ اسلام کا اہم رکن ہے، ٹیکس کی نوعیت تو کچھ اور ہوتی ہے جو اکثر اوقات ظلم کے زمرے میں آتا ہے۔ آئیے میں آپ کو زکوٰۃ اور ٹیکس میں فرق بتاتی ہوں۔
زکوٰۃ دین اسلام کے پانچ بنیادی ارکان میں سے ایک رکن اور اللہ تعالی کی طرف سے ایک اہم فریضہ ہے جس کا تارک واجب القتل نہیں۔ اسلام دوسروں کی ضروریات پوری کرنے کے لیے اخلاق اور قانون دونوں سے کام لیتا ہے، زکوٰۃ کی صورت میں نقد اور زمین سے پیدا ہونے والی اجناس پر مقررہ متعین شرح سے آمدنی کا ایک حصہ صاحب ثروت لوگوں سے قانوناً لے کر ضرورت مندوں کی کفالت کا بندوبست کرتا ہے۔ یہ کام اسلامی حکومت کے اولین فرائض میں شامل ہے۔
زکوٰۃ اور عشر میں بھی فرق ہوتا ہے۔ زکوٰۃ کی شرح قابل نصاب مال پر ڈھائی فیصد ہے جبکہ عشر 10 فیصد ہے۔ عشر کا لغوی مطلب ہے دسواں حصہ جبکہ دینی اصطلاح میں یہ زمین کی پیداوار کی زکوٰۃ ہے۔ اگر بارانی زمین ہو (یعنی جس پر کوئی خرچہ نہ آتا ہے) تو دسواں حصہ، بصورت دیگر (یعنی ٹیوب ویل وغیرہ کا خرچہ) بیسواں حصہ ادا کرنا ہوتا ہے۔ یعنی اگر بارانی زمین سے آُپ کو سو بوری گندم حاصل ہوئی ہے تو آپ دس بوریاں دیں گے بصورت دیگر پانچ بوری۔
جہاں تک ٹیکس کا تعلق ہے تو یہ معروضی حالات میں وقتی طور پر لاگو کیا جا سکتا ہے۔ پھر اس سے حاصل ہونے والی رقم کو امانت داری کے ساتھ قوم کی حفاظت یا بہبود کے لئے خرچ کیا جانا چاہیے۔ لیکن اگر اس کے بغیر گزارہ چلتا ہو تو پھر ٹیکس لگانا ظلم قرار پاتا ہے۔
پھر زکوٰۃ یا عشر کے مصارف آٹھ ہیں جن کا ذکر قرآن میں آیا ہے، ان کے علاوہ کسی مصرف میں ان کو استعمال کرنا جائز نہیں ہے۔ جبکہ ٹیکس کے بیسیوں مصارف ہیں، جہاں حکومت خرچ کرنا چاہے اپنی مرضی سے کر سکتی ہے۔ مصارف کا معاملہ بہت حساس اور اس سے بالکل مختلف ہے۔
زکوٰۃ سال میں ایک دفعہ ادا کرنا فرض ہے جبکہ بعض ٹیکس روزانہ، بعض ماہانہ، بعض سالانہ اور بعض حسب موقع لاگو ہوتے ہیں۔ کسی علاقے کے صاحب حیثیت لوگوں سے لے کر اسی علاقے کے فقراء میں تقسیم کر دی جائے۔ اگر کسی علاقے میں فقیر کم ہیں تو جو زکوٰۃ بچ جائے وہ بیت المال میں جمع ہو جاتی ہے جبکہ ٹیکس غریبوں اور امیروں سے لے کر مختلف قسم کے شعبہ جات اور مدات میں خرچ کیے جاتے ہیں۔
آج جو ملک میں قحط و افلاس و بے برکتی عام ہے شاید اس کی بہت بڑی وجہ زکوٰۃ کی عدم ادائیگی ہے۔ زکوٰۃ مکمل ادا نہ کرنے کی وجہ کچھ بھی ہو؛ خواہ یہ وجہ ہو کہ مسلمانوں کی اکثریت کو کہ زکوٰۃ کن اموال پر فرض ہوتی ہے اس سے متعلق آگاہی نہیں یا وہی مال کا نشہ جو بالعموم حضرت انسان کی نس نس میں بھرا ہے جیسے شراب کا رسیا بوتل چھوڑنے پر آمادہ نہیں ہوتا یوں ہی مال کا حریص صدقات واجبہ نکالنے پر آمادہ نہیں ہوتا۔
زکوٰۃ وعشر کا نظام حکومت کی طرف سے شرعی اصول کے مطابق نہیں۔ اور چونکہ اس سے ضرورت مندوں، محتاجوں، مسکینوں کی کفالت بھی حکومت نہیں کرتی نہ اسے شرعی مصارف میں صرف کرتی ہے بلکہ دوسرے شعبوں کی طرف اس شعبے میں بھی لوٹ مار اور افسر شاہی کے اللوں تللوں کی بھرمار ہے۔ نہ وصولی میں شرعی اصولوں کی پابندی ہے نہ صرف کرنے میں اس لیے محتاط مسلمان اپنے طور پر اپنے مال کی زکوٰۃ مناسب مصارف میں خود صرف کرتے ہیں۔ یہ بالکل جائز ہے۔ حالانکہ زکوٰۃ امرا سے لے کر فقراء میں صرف کرنے کے لئے فرض کی گئی ہے تاکہ غریب و مسکین اور حاجت مندوں کی باعزت کفالت ہو۔ آج کل حکومت زکوٰۃ تو لیتی ہے مگر وہ ذمہ داریاں پوری نہیں کرتی جو اسے پوری کرنی چاہئیں اور ہر چیز پر ٹیکس لگائے بیٹھی ہے۔ اس لئے میں حیران ہوں کہ محولہ بالا مفتی صاحب کس بنیاد پر زکوٰۃ اور ٹیکس کو یکساں اور برابر قرار دیتے ہے۔ آپ بتائیں کیا موصوف کی رائے سے اتفاق ممکن ہے؟
نوٹ: سعدیہ بی بی کمپیوٹر سائنس کی طالبہ ہیں اور مختلف موضوعات پر بلاگز بھی لکھتی ہیں۔