بلاگزعوام کی آواز

قبائلی خواتین سے جڑے روایات، جن پر بات کرنا مشکل سمجھا جاتا ہے

سعيده سلارزئی

دنیا بھر میں خواتین اپنے حقوق کے لئے آواز بلند کر رہی ہیں تاہم خیبر پختونخوا کے قبائلی اضلاع سمیت دیگر ممالک میں آج کے ترقی یافتہ دور میں بھی خواتین صنفی عدم مساوات، تعصب اور امتیازی کا سامنا کر رہی ہیں جس کی وجہ انہیں کئی طرح کے چیلجز درپیش ہیں۔

قبائلی اضلاع سے تعلق رکھنے والی زیادہ تر خواتین کو ان کے بنیادی حقوق سے محروم رکھا گیا ہے جن میں ایک جائیدار میں وراثت کا حق ہے، ان علاقوں میں صدیوں سے لاکھوں خواتین کو اپنے باپ، بھائی کی جائیدار میں حصہ نہیں دیا جا رہا جس پر بات کرنا بھی مشکل سمجھا جاتا ہے۔ ہاں ! کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ خواتین بھی اس معاشرہ کا حصہ ہے اور انہیں بھی جائیداد میں حصہ دینا چاہئے جو کہ قابل تعریف بات ہے۔

میں بذات خود بہت سی خواتین کو جانتی ہوں جو انتہائی غربت کی زندگی گزار رہی ہیں تاہم ان کے بھائی اور والد بہن بیٹی کو جائیدار میں حصہ نہیں دیتے اور وہ سمجھتے ہیں کہ یہ قبائلی روایات کے خلاف ہے جبکہ قانون اور اسلام میں صاف واضح ہے کہ بہن اور بیٹی کو وراثت میں ان کا حق دو۔

یہی نہیں اگر کوئی عورت ہمت کرکے بھائی یا والد سے وراثت میں حصہ لینے کا مطالبہ کرتی ہے تو اسے برا بھلا کہا جاتا ہے اور بات قطع تعلق تک پہنچ جاتی ہے  اس لیے وہ خاموش ہو جاتی ہیں۔

کھیتوں میں کام، ہابر سے سروں پر پانی لاسکتی ہیں، نوکری نہیں کرسکتی، آخر کیوں؟

ان کے اضلاع کے خواتین کھیتوں میں مردوں کے شانہ بشانہ کام کرتی ہے مگر گھر اور معاشرے کی بہتری کے لئے انہیں باہر کام کرنے کی بلکل بھی اجازت نہیں جس کی بنیادی تعلیم و شعور کی کمی ہے۔ میرے خیال میں قبائلی خواتین کو اپنی روایات کے اندر رہ کر ملازمت کے مواقع پیدا کرنے کی ضرورت ہے جبکہ انہیں تعلیم، صحت اور دیگر شعبوں میں اپنا لوہا منوانا چاہئے۔

دوسری جانب حکومت کی بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ دیہی علاقوں میں خواتین کے لئے پیشہ ورانہ مہارتوں پر مبنی شارٹ کورسز شروع کریں، جو خواتین مڈل یا میٹرک کے بعد تعلیم سے محروم ہوگئی ہے ان کے لئے ٹریننگ سنٹر کھول دیئے جائے جس سے نہ صرف یہ خواتین ہنر مند بن جائیں گئی بلکہ ان میں تعلیم کے ساتھ شعور بھی اجاگر ہوجائے گا اور وہ خود مختار بن کر کسی پر انحصار کرنے کے لئے محتاج نہیں رہے گی۔

اگر قبائلی خواتین کی صلاحیت پر بات کی جائے تو ہمارے ضلع باجوڑ میں بہت سی خواتین ہاتھوں سے بہتر قالین بنا سکتی ہے تاہم گھروں میں مواقع اور باہر کام کرنے کی اجازت نہ ہونے کی وجہ سے یہ خواتین ہنر کے باجود بھی کچھ نہیں کرسکتی۔

میں نے ایک ٹریننگ میں اس حوالے بات کی کہ اگر ان ہنر مند خواتین کے لئے ایک جگہ قائم کی جائے اور اس میں سہولیات مہیا کی جائے تو ہنر مند خواتین اپنی قبائلی روایات میں رہ کر کام کر سکے گی اور ساتھ میں دیگر خواتین کو روزگار کے مواقع ہاتھ آئیں گے۔

آخر میں یہ کہنا چاہوں گی کہ عورت کو ثقافتی بندشوں کی نذر نہ کریں، ان کو وہ تمام جائز حقوق سے نوازیں جو ہمارے دین اسلام نے انہیں دیئے ہیں جبکہ عورت کو معاشرے کا ایک مکمل اور حقوق کے لحاظ سے برابر انسان تسلیم کیا کریں تاکہ مرد اور عورت مشترکہ طور پر معاشرے کی ترقی میں اپنا کردار ادا کریں۔

Show More

Salman

سلمان یوسفزئی ایک ملٹی میڈیا جرنلسٹ ہے اور گزشتہ سات سالوں سے پشاور میں قومی اور بین الاقوامی میڈیا اداروں کے ساتھ مختلف موضوعات پر کام کررہے ہیں۔

متعلقہ پوسٹس

Back to top button