ڈولی میں جنازے
سعدیہ بی بی
کچھ ہی عرصہ پہلے کی بات ہے کالج میں ہم ساری فرینڈز مل کر گانے گا رہی تھیں، اور ساتھ ساتھ رقص بھی کر رہی تھیں۔ دراصل یہ ایک ریہرسل ہو رہی تھی۔ اگلے کچھ ہی دنوں میں ہماری ایک پیاری سی سہیلی اپنے بابل کے گھر سے پیا دیس سدھارنے جا رہی تھی۔ ہم مستی میں اتنے گم کب ٹیچر آئیں، پتہ ہی نہ چلا۔ پر ٹیچر جو آئیں تو سب کو جیسے سانپ سونگھ گیا، سب اپنی اپنی جگہ ایسے، جیسے برف جم گئی ہو، منہ بند، ایسے لگ رہا تھا جیسے کمرے میں کوئی تھا ہی نہیں! خاموشی ایسی کہ سوئی گرے، اور آواز سنائی دے۔
ہم ڈری، سہمی کھڑی رہیں۔ ٹیچر نے طنزاً ہنستے ہوئے کہا، "شاباش! آپ لوگوں سے یہی امید کی جا سکتی ہے۔ یہ کسر اپنی شادیوں میں پوری کر لینا ابھی پڑھنے کا وقت ہے تو پڑھ لو، یہ مزے بعد میں بھی کیے جا سکتے ہیں۔” میں نے کہا، "ہم شادی ہی کی تیاریاں کر رہے ہیں۔ کچھ دنوں میں ہماری اس شہزادی (سر سےاشارہ کر کے) کی شادی ہے۔”
ٹیچر ہنستے ہوئے بولی، "اچھا! تبھی آپ لوگ تیاریاں کر رہے ہو۔ بچے۔۔ آپ کو بہت بہت مبارک ہو!” پر میری دوست نے ٹیچر کی مبارکباد کا جواب تک نہیں دیا، چپ سادھے، سر جھکائے بس ایک سائیڈ پے کھڑی رہی۔ مجھے بہت عجیب لگا۔ پھر لگا یہ شاید پریشان ہے، پوچھنا چاہتی تھی پر پھر ذہن سے ہی نکل گئی بات۔ بعد میں اکٹھے بیٹھ کر گپ شپ لگائی۔
تمام دوست اپنے اپنے خیالات کا اظہار کر رہی تھیں کہ انہوں نے شادی میں کیا کیا کرنا ہے۔ شہزادی صاحبہ بھی بظاہر خوش نظر آ رہی تھی۔ یا شاید خود کو خوش ظاہر کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔ چہرہ دیکھ کر تو لگتا یہی کہ وہ بھی خوش ہے۔ پر نجانے کیوں میں کچھ گڑبڑ محسوس کر رہی تھی۔ خیر میں بھی بہت خوش تھی، اور کیوں نہ ہوتی کہ یہ شادی بھی اس کی تھی جو مجھے سب سے عزیز تھی۔
آخرکار وہ دن آ ہی گیا۔ میں صبح اٹھتے ہی تیاری کرنے لگ گئی تھی۔ تیاری کیا تھی، گھر میں ایک انت مچا رکھا تھا جیسے شادی اس کی نہیں میری ہونے جا رہی ہے۔ جانا رات کو تھا اور صبح سے پاگلوں کی طرح کبھی یہاں کبھی وہاں گھوم پھر کر، کوئی چیز اٹھا کوئی پھینک رہی تھی۔ شام کا وقت تھا جب تیار ہوئی، میک اپ شیک اپ کر کے، خود کو ہر طرح سے سنوار کر اپنے پیارے بابا کے پاس گئی اور کہا، "مجھے لے چلیں۔”
بابا نے جو میری شان بان دیکھی تو انہیں مذاق سوجھا، تنک کر بولے "اوہو! تم تو ایسے تیار ہوئی ہو جیسے شادی اس کی نہیں تمہاری ہے۔” میں نے بھی ترنت جواب دیا، "بابا! میری بھی ہو جائے گی، ابھی تو مجھے اپنی دوست کی شادی پے جانا ہے۔” یہ سن کر بابا ہنس پڑے۔
خیر گاڑی میں بیٹھے اور کچھ ہی دیر میں ہال پہنچ ہی گئے۔ ہال میں قدم رکھا تو ایسے محسوس ہوا جیسے کسی اور ہی دنیا میں قدم رکھ دیا ہے؛ ہر چیز بہت خوبصورت لگ رہی تھی، ہر طرف روشنی ہی روشنی، جس طرف دیکھو تو لائٹس لگی ہوئی تھیں۔ سارا ہال پھولوں سے سجا، ہر طرف چہل پہل تھی۔ ہر کوئی ایک دوسرے سے گلے ملنے اور یا پھر باتوں میں مشغول تھا۔ اور کیا۔۔ قسم قسم گانے، اور ساتھ میری ساری فرینڈز محورقص! یہ سب دیکھ کر میں بھی خوشی سے جھومنے لگی۔
سب سے پہلے شہزادی صاحبہ سے ملنے کمرے کی طرف گئی۔ دیکھا تو بہت ہی پیاری لگ رہی تھی، گلے ملی اور ساتھ بیٹھ گئی۔ لیکن میں، اپنی دوست کے حالِ دل سے ناواقف، یہ نہیں جانتی تھی کہ اس پے کیا گزر رہی ہے۔ میں نے اس کو بہت الجھا ہوا اور مایوس پایا۔ رخصتی سے تھوڑی دیر قبل اس کی آنکھ سے موتی جیسا ایک آنسو ٹپکا، اس کے صبر کا پیمانہ چھلک ہی گیا، بولی، "میں یہ شادی نہیں کرنا چاہتی، ماں باپ کے بہت اصرار پر کر رہی ہوں۔” میں نے کہا تمہیں اپنے والدین کو بتا دینا چاہیے تھا۔ جواب ملا، "میں اپنے والدین سے کچھ بھی نہیں کہہ سکتی، میں اپنے لیے کبھی بولی ہی نہیں لیکن مجھے امید تھی کہ مجھ سے میری رائے لی جائے گی، پر مجھے اتنا بھی حق نہیں دیا، اور پوچھا تک نہیں۔”
میری دوست کے لیے یہ غم کیا کم تھا کہ اتنے میں سامنے بیٹھی ایک خاتون نے یہ کہہ کر "کیا یہ تمہارا شوہر ہے، یہ تو تمہارے ساتھ ملتا ہی نہیں!” باقی کسر بھی پوری کر دی۔ ان کو ایسا نہیں بولنا چاہیے تھا۔ پتہ نہیں ہم لوگ کیسے ایسے بول، بول لیتے ہیں۔ بات جوڑ یا میل کی نہیں اس کی پسند کی تھی، وہ بھلے کسی کو پسند نہیں کرتی تھی پر اِس سے بھی شادی نہیں کرنا چاہتی تھی۔ والدین کو چاہیے تھا کم از کم ایک بار تو اپنی بیٹی سے پوچھ لیتے۔ بیٹی کا یہ وہ حق ہے جو ہم آپ نے نہیں، اللہ اور اس کے رسول نے اسے دے رکھا ہے۔
پسند کی شادی کی اجازت کیا، اسلام تو اس کا درس، بلکہ حکم دیتا ہے۔ اگرچہ یہاں بات پسند کی شادی کی ہے ہی نہیں۔ یہاں بات اس حق کی ہے جو میری دوست کو ملنا چاہیے تھا کیونکہ یہ اس کی زندگی ہے جو اس نے ہی گزارنی ہے، اس کے والدین نے نہیں۔ مان لیا والدین ہمارا برا نہیں سوچ سکتے، وہ ہمارے لیے سب کچھ اچھے سے اچھا کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ والدین کے کچھ فیصلوں سے اولاد مسکرانا بھول جاتی ہے۔ اپنی لختِ جگر کو زبردستی اگر بٹھا دیا جائے ڈولی میں، تو وہ دلہن نہیں اک زندہ لاش بن جاتی ہے، اور وہ اک جنازہ ہوتا ہے بارات نہیں۔
نکاح صرف چار حروف کا مجموعہ نہیں ہے۔ نکاح ایک ذمہ داری ہے، ایک عہدِ وفاداری ہے؛ خود سے، اپنے ہمسفر سے، دو خاندانوں سے۔ جن کی بیٹی کی شادی کسی بھلے آدمی سے ہو جائے تو ان کو بیٹا مل جاتا ہے، بصورت دیگر وہ اپنی بیٹی کو بھی کھو دیتے ہیں۔
اپنی بچی کا حال پوچھا کریں، شادی جیسے اہم فیصلے میں اس کی مرضی جاننا لازم ہے، اس کی شادی اس کی مرضی سے کروائیں، اس کی اجازت، اس کی پسند ناپسند ضرور پوچھیں تاکہ کل کو آپ کی بیٹی اک دلہن بن کر ڈولی میں بیٹھے، اور آپ کے آنگن سے اس کی ڈولی اٹھے، جیتے جی اس کا جنازہ نہیں!
نوٹ: سعدیہ بی بی کمپیوٹر سائنس کی طالبہ ہیں، اور مختلف سماجی و معاشی مسائل پر بلاگز لکھتی رہتی ہیں۔