بلاگزعوام کی آواز

پتہ نہیں اگلے رمضان المبارک میں والدین میرے ساتھ ہوں گے یا نہیں!

سدرا آیان

میں کچی نیند سو رہی تھی کہ رات تین بجے معمول کے مطابق سحری کے لئے اٹھنے کا اعلان ہوا، میں یک دم نیند سے بیدار ہوگئی اور عادتاً بستر پر پڑی رہی، میری آنکھیں ابھی پوری طریقے سے کھلی بھی نہیں تھیں کہ کچن سے شور آنے لگا اور میں سمجھ گئی کہ ممی ( امی ) اٹھ گئی ہے۔

بجلی نہ ہونے کی وجہ سے گھر کے تمام الیکٹرانکس ڈیوائس بند تھے جس کی وجہ سے مکمل خاموشی تھی تاہم مسجد میں ہونے والے اعلانات کی گونج اور کچن سے آنے والی آوازیں مجھ مزید بستر پر پڑی رہنے نہیں دے رہے تھے۔ اردگرد کے اعلانات میں میرا دھیان صرف اس آواز میں اٹکا ہوا تھا جو کچن سے آ رہی تھی، مجھ ایسا لگ رہا تھا کہ ان آوازوں سے میرا بہت پرانا رشتہ ہے، جیسے کچن کا وہ منظر میری بند آنکھوں میں بھی دکھائی دے رہا تھا، جیسے امی نے برتن اٹھا کر صحیح جگہ رکھ لیے، چائے کے کپس دھوتے وقت آپس میں ٹکرا کر آواز پیدا کر رہی تھی۔ یہ آوزیں مجھے پچھلے سالوں کی سحریوں میں کھینچ کر لے گئ کیونکہ یہ وہ آوازیں تھی جن کو ہر سال رمضان میں سنتے سنتے میں بڑی ہوگئی۔

میں کوئی چھ سات سال کی تھی اور امی پاپا ہم بہن بھائیوں سے چپ کر سحری کے لیے اٹھتے تھے کہ کہیں بچے نہ اٹھ جائے لیکن ان کی حد درجے احتیاط کے باوجود ہم میں سے کسی نہ کسی کی آنکھ کھلتی اور وہی بندہ باقیوں کو جگاتا اور پھر اسی روز ہمارا بھی روزہ ہوتا تھا۔

اس وقت کمرے میں بیس روپے والا کوئی پیلی سی روشنی دینے والا بلب تھا جس کی روشنی بہت سکون بخش تھی، چائے کے ساتھ پراٹھا، انڈہ اور جام کھانے کو ملتا، اور تب یہ کھانا ہمارا پسندیدہ تھا شائد پہلا پہلا ذائقہ تھا جو محسوس کیا تھا اس لیے وہ جام کھا کر ایک الگ قسم کی خوشی ملتی تھی۔ پھر کچھ سال گزر گئے اور میں تھوڑی بڑی ہوئی تب تک وہی سحری میں وہی مزہ تھا لیکن اب جام اور انڈہ کی پسندیدگی میں کمی آئی تھی کیونکہ سالن کھانے لگے تھے سب اور بازار سے لائی گئی مختلف چیزیں، سحری میں ایک اور چیز بھی شامل ہوئی، کدو جوس! ہمارے خاندان میں کدو کا بنا جوس بہت شوق سے پیتے تھے سب کہ یہ بہت ہیلدی ہے اور اس کو پینے سے پیاس بھی نہیں لگتا روزے کے دوران! تو سب سحری کرتے اور پھر بڑے بڑے کٹورے کدو کے جوس سے بھر کر بھائیوں اور پاپا کو دیتے۔ اس کے بعد تین چار سال میں ہماری باری آئی روزے رکھنے کی لیکن اب سب کچھ بدل گیا تھا ۔

پاپا بیمار پڑ گئے ڈاکٹر نے روزے رکھنے سے منع کردیا، چھوٹا بھائی جو سحری اور افطاری کا رونق تھی وہ دبئی چلا گیا ۔ چائے کا من نہیں کرتا تھا جام اور انڈہ کا ذائقے سے اب دل خراب ہونے لگا تھا۔ امی کو بھی بیماری کی وجہ سے ڈاکٹر نے روزے رکھنے سے منع کردیا لیکن انہوں نے کہا جتنے رکھ سکتی ہے اتنے تو کم از کم رکھ لے!

خیر موبائل پر امی کی کال دیکھی تو خیالوں سے نکل آئی ان کی کال سے سکرین شاٹ لے لی کہ کیا پتہ اگلے رمضان میں سحری میں اپنے شوہر کے ساتھ کروں اور امی کی پھر کبھی سحری کے لیے اٹھنے کے لیے کال آئے۔ بچپن میں والدین چپ چپ کر سحری کرتے کہ بچے نہ اٹھ جائے پھر ہم چپ چپ کر سحری کرنے لگے کہ کہیں ہماری شور سے پاپا کی نیند خراب نہ ہو۔

اس سال رمضان میں بھی دل کسی اندیکھے درد میں گھرا ہوا ہے ہر بار کی طرح اس بار بھی یہی سوچ رہی ہوں کہ پتہ نہیں اگلے رمضان المبارک میں میرے والدین میرے ساتھ ہوں گے یا نہیں ، حیات ہوں گے بھی یا ….

وقت بہت تیزی سے گزر گیا ، پلک جھپکتے ہی جام کے ذائقے سے دل بھر گیا، پاپا کے ساتھ کرنے والے سحری یاد بن کر رہ گئی ، بچن کی سحریوں کا الگ ہی مزہ تھا لیکن اس وقت بھی میں ایک لذت سے محروم رہ گئی تھی سب کچھ تھا ہر چیز کو دیکھا محسوس کیا لیکن اپنی امی کو غور سے نہیں دیکھا تھا پاپا کو نہیں دیکھا تھا کہ وہ صحت مند جوانی میں کیسے دکھتے تھے جب ان کے بال سیاہ کالے تھے جب ان کے چہروں پر کوئی جھری نہیں تھی، اب دیکھتی ہوں تو سفید بال، ڈھلتا وجود اور جھریوں بھرا چہرہ، جس پر اس بڑھاپے میں بھی اپنا دل قربان کرنے کو جی چاہتا ہے، پتہ نہیں وہ جوانی میں کیسے دکھتے ہون گے، گہرے دکھ اور بہت سے آنسوؤں کو اندر اتار کر اب میں بار بار انہیں دیکھتی ہوں اگرچہ میرا من نہیں بھرا لیکن پھر میں ان جھریوں سے بھرے چہروں کو دیکھتی ہوں جنہیں بچپن میں نہیں دیکھ پائی کہ کہیں کل کو یہ نا کہوں کہ بڑھاپے میں ان کے چہرے کیسے تھے۔

Show More

Salman

سلمان یوسفزئی ایک ملٹی میڈیا جرنلسٹ ہے اور گزشتہ سات سالوں سے پشاور میں قومی اور بین الاقوامی میڈیا اداروں کے ساتھ مختلف موضوعات پر کام کررہے ہیں۔

متعلقہ پوسٹس

Back to top button