بلاگزلائف سٹائل

‘بات ہو رہی تھی میڈیا میں تنوع کی جو مجھے بالکل بھی نظر نہیں آتی’

خالدہ نیاز

میڈیا میں خواتین کے مسائل کو خواتین ہی بہتر طریقے سے اجاگر کرسکتی ہیں لیکن بدقسمتی سے ہمارے ملک اور خاص طور پر خیبر پختونخوا میں خواتین رپورٹرز کی تعداد بہت کم ہے جبکہ اگر کچھ خواتین فیلڈ میں کام کر بھی رہی ہیں لیکن وہ ایسی پوزیشنز پر نہیں ہیں جہاں وہ خواتین کے حوالے سے بہتر رپورٹنگ کرسکیں۔

میڈیا میں خواتین فیصلہ سازی کی پوزیشنز پر نہیں ہے جس کی وجہ سے ان کو ان ہی بیٹس پر کام کرنا پڑتا ہے جس کا ان کو اپنے ایڈیٹر کی جانب سے کہا جاتا ہے۔ خواتین ہی خواتین کے مسائل پر اچھا کام کرسکتی ہیں کیونکہ ایک خاتون کو پتہ ہوتا ہے کہ خواتین کس کرب سے گزرتی ہیں ان کو کون سے مسائل نے گھیر رکھا ہے اور ایسے میں ان کو کس طرح مدد کی ضرورت ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ‘خواتین کے بغیر نشریاتی اداروں میں تنوع کی فضاء قائم کرنا ممکن نہیں’

گزشتہ روز ڈائیورسٹی ان میڈیا کے نام سے ایک روزہ سیمنار میں شرکت کی جہاں تنوع کے حوالے سے کافی کچھ سننے کو ملا، کانفرنس میں خواتین کے علاوہ خواجہ سراؤں، افغان مہاجرین اور خصوصی افراد کے حوالے سے بھی بات کی گئ کہ کس طرح ان کو میڈیا میں نظر انداز کیا جا رہا ہے اور ان کے مسائل دنیا کی نظروں سے چھپائے جا رہے ہیں۔

سیمینار میں خیبر پختونخوا کی پہلی خاتون بیورو چیف فرزانہ علی نے بھی شرکت کی، اپنی سٹرگل کے حوالے سے بات کرتے ہوئے فرزانہ علی نے کہا کہ شروع میں ان کو سپورٹ کرنے والا واحد ان کا والد تھا اور باقی کوئی بھی اس حق میں نہیں تھے کہ وہ صحافت میں جائے لیکن انہوں نے بہت محنت سے اپنا ایک مقام بنایا اور آج وہ اس پوزیشن پر ہے جہاں وہ اپنے دفتر میں نہ صرف خواتین کو ایک اچھا ماحول فراہم کررہی ہے بلکہ خواتین کے مسائل پر بات کرنے اور فیصلہ سازی کا بھی حق رکھتی ہیں۔

فرزانہ علی نے کہا کہ مسائل تب بھی تھے اور اب بھی ہے لیکن اس ضمن میں خواتین کو ہمت کرنی ہوگی کیونکہ کچھ پانے کے لیے کچھ کھونا پڑتا ہے اور خواتین کو اپنی جگہ بنانے کے لیے مردوں کی نسبت زیادہ محنت کرنی پڑتی ہیں۔

لیکن یہاں میرے ذہن میں ایک سوال ابھرتا ہے کہ آیا خواتین کو باس کے طور پر ہمارا معاشرہ قبول کرتا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ خاتون جب بھی محنت سے اپنا مقام بناتی ہیں یہی ذہنی بیمار لوگ کہنا شروع کرتے ہیں کہ خاتون ہے نہ تبھی اس کو موقع مل رہا ہے یہاں میں اپنی بات بھی کروں گی کہ مجھے جب بھی کوئی فیلوشپ ملتی ہے تو ارد گرد کے لوگ کہتے ہیں لڑکی ہے نہ تبھی تو مواقع ملتے ہیں۔

خیر آتے ہیں موضوع پر تو جناب بات ہو رہی تھی میڈیا میں تنوع کی جو کہ مجھے تو بالکل بھی نظر نہیں آتی کیونکہ میڈیا میں تو سیاست کی ہی بات ہوتی ہے عمران خان نے یہ کہا، نواز شریف یہ کہہ رہے ہیں، احتجاج ہو رہا ہے فلاں فلاں۔۔۔۔  لیکن مسائل پر تو کوئی بات ہی نہیں کر رہا خواتین کو کیا مسائل ہیں کسی کو کوئی پرواہ نہیں، خواجہ سراؤں کو کن مشکلات کا سامنا ہے، معذور افراد کن مسائل سے دوچار ہیں، تیس لاکھ افغان مہاجرین کس کرب سے گزر رہے ہیں میڈیا کو اس سے کیا میڈیا کو تو بس ویوز اور کمرشلز کی ضرورت ہے۔

میں یہ نہیں کہتی کہ سیاست پر بات نہیں کرنی چاہیئے لیکن باقی مسائل پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے کیونکہ میڈیا ہی لوگوں کی آواز ہے جہاں سے مسائل کو اجاگر کیا جاسکتا ہے اور ان کا حل بھی ڈھونڈا جاسکتا ہے۔

ایک اور اہم بات یہاں ضرور کرنا چاہوں گی کہ جس کمیونٹی کے مسائل پر بات ہو ان کو اس کا حصہ ضرور بنایا جانا چاہیے کیونکہ افغان پناہ گزین ہی مہاجرین پر بہتر رپورٹنگ کرسکتا ہے، خواجہ سراء ہی اپنے طبقے کی بہترین نمائندگی کرسکتا ہے اور خواتین ہی خواتین کی بہترین عکاسی ہوسکتی ہیں لیکن ان کو صرف رپورٹنگ اور سکرین تک محدود کرنے سے فائدہ نہیں ہوگا بلکہ انکو فیصلہ سازی کا اختیار بھی ملنا چاہیئے۔

 

Show More

Salman

سلمان یوسفزئی ایک ملٹی میڈیا جرنلسٹ ہے اور گزشتہ سات سالوں سے پشاور میں قومی اور بین الاقوامی میڈیا اداروں کے ساتھ مختلف موضوعات پر کام کررہے ہیں۔

متعلقہ پوسٹس

Back to top button