کٹے اور ٹوٹے ہوئے بال بیچ کر پیسہ کما لو، مگر کیسے؟
ماریہ سلیم
بال انسان کی شخصیت کا نہ صرف اہم حصہ ہے بلکہ لمبے، گھنے اور خوبصورت بالوں کو حسن کی علامت بھی سمجھا جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ لمبی اور گھنی زلفیں شاعری کا محور بنتی رہتی ہیں۔
بال سر پر ہوں تو قیمتی ہیں لیکن ٹوٹے اور کٹے ہوئے بال دیکھ کر افسردہ نہیں ہونا چاہئے کیونکہ اب ٹوٹے اور کٹے ہوئے بالوں کو بیچ کر اچھے پیسے کمائے جا سکتے ہیں، آپ نے گھر گھر جا کر خواتین سے اچھی رقم کے عوض بال خریدتے ہوئے پھیری والوں کو ضرور دیکھا ہو گا تاہم یہاں سوچنے والی بات یہ ہے کہ آخر ٹوٹے ہوئے بال خریدنے کا کیا فائدہ ہو سکتا ہے؟
نہیں پتہ نا؟ چلو میں بتاتی ہوں! آپ نے مخلتف کاروباروں کا تو سنا ہو گا لیکن یہ جان کر آپ کو حیرت ہو گی کہ دنیا کے مہنگے ترین کاروباروں میں سے ایک کاروبار بالوں کی خرید و فروخت کا بھی ہے۔
ایک محتاط اندازے کے مطابق تقریباً 35 ملین مرد اور 21 ملین عورتیں گنجے پن کا شکار ہیں جبکہ اس پریشانی کے شکار لوگوں کے لیے دو ہی راستے ہیں؛ ایک ہیئر ٹرانسپلانٹ اور دوسرا مصنوعی بال یعنی وگ لگانا۔
اب چونکہ ہیئر ٹرانسپلانٹ مہنگا عمل ہے جس سے سب لوگ مستفید نہیں ہو سکتے ایسے میں متوسط طبقے کے لوگ وگ خرید کر اپنی یہ محرومی چھپانے کی کوشش کرتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: بلغاریہ کی مارکیٹ جہاں دلہن بیچی اور خریدی جاتی ہے!
وگ کیسے بنائی جاتی ہے؟
پلاسٹک کے فائبر اور انسانی بال، دونوں سے وگ بنائی جا سکتی ہے لیکن قدرتی بالوں سے بنائی گئی وگ کی قیمت مصنوعی بالوں سے بنی وگ کے مقابلے میں نسبتاً زیادہ ہوتی ہے کیونکہ یہ وگ پائیدار ہونے کے ساتھ عام بالوں کی طرح واش اور من پسند سٹائل میں ڈھالی جا سکتی ہے۔
انسانی بالوں سے وگ بنانے کے لیے گھر گھر سے بال اکٹھے کیے جاتے ہیں، یہ وہ بال ہوتے ہیں جو کنگھی کرتے ہوئے ٹوٹ جاتے ہیں یا بیوٹی پارلر میں ہیئرکٹنگ سے حاصل ہوتے ہیں۔ مردوں کے بالوں کی لمبائی چونکہ نسبتاً کم ہوتی ہے اس لیے خصوصی طور پر خواتین کے بالوں کا انتخاب کیا جاتا ہے۔
مقامی افراد کے مطابق گھروں سے اکٹھے کئے جانے والے بال دگنے داموں پر آگے ڈیلرز پر بیچے جاتے ہیں جبکہ مقامی ڈیلرز سات سے 10 ہزار روپے فی کلو کے حساب سے بال خریدنے کے بعد صفائی کر کے مہنگے داموں بیچتے ہیں۔
ادھر یہ بال دھونے اور صاف ستھرا کرنے کے بعد چین برآمد کئے جاتے ہیں لیکن پھر انہی بالوں کی قیمت بیس سے پچیس ہزار روپے فی کلو مختص کی جاتی ہے۔
دھلے ہوئے خشک بالوں میں سے ایک مناسب سائز کا گچھا لے کر اسے ہیکل سے بار بار گزارا جاتا ہے۔ اس عمل کو ہیکل پروسیسنگ کہتے ہیں جبکہ ہیکل ایک آلہ ہے جو لکڑی کے ایک تختے پر بہت ساری کیل ٹھوکنے کے بعد تیار ہوتا ہے، وگ ماسٹر اس نوکیلی کنگھی سے بار بار بالوں کو گزارتا ہے جس سے الجھے بال کھل کر اچھی حالت میں آ جاتے ہیں۔
بالوں کو سلجھانے کے بعد ان کے الگ الگ گچھے بنا کر ربڑ بینڈ سے باندھ کر وگ ماسٹر کے پاس بھیج دیا جاتا ہے جو بالوں کو ایک باریک نیٹ پر رکھ کر انسانی سر کی ہیئر لائن اور درمیانی مانگ کو مدنظر رکھ کر سلائی کرتا ہے اس عمل کو وینٹیلیٹنگ کہا جاتا ہے۔ اس کے بعد وگ کی پیکجنگ کا عمل شروع ہوتا ہے اور اچھی پیکجنگ کے بعد انہیں مارکیٹ میں اتارا جاتا ہے جہاں ایک وگ ہزاروں روپے میں فروخت کی جاتی ہے۔
دورِ حاضر میں بالوں کی ری سائیکلنگ کا کاروبار پاکستان میں زور پکڑنے لگا ہے کیونکہ دنیا بھر میں وگ کی ڈیمانڈ حیرت انگیز طور پر بڑھتی جا رہی ہے۔ 2021 کی گلوبل ہیومن ہیئر ایکسپورٹ کی رپورٹ کے مطابق پاکستان انسانی بالوں کی برآمد میں انڈیا اور ہانگ کانگ کے بعد دنیا کا تیسرا بڑا ملک ہے۔
دوسری جانب لوگوں میں بھی اس بارے آگاہی بڑھتی جا رہی ہے یہی وجہ ہے کہ اب خواتین ٹوٹے اور گرتے بال کچرے میں پھینکنے کی بجائے گھروں میں جمع کرتی ہیں اور پھر پھیری والے کا انتظار کرتی ہیں تاکہ وہ آئے اور وہ یہ بال اس کے ہاتھ فروخت کر سکیں۔