پاکستان پر قرضوں کا بوجھ، ایک بنیادی سوال!
نازیہ سلارزئی
کیا آپ جانتے ہیں کہ کس طرح دنیا کے مختلف ممالک کو قرض دے کر پھنسایا جاتا ہے جس کے بعد مقروض ملک عالمی مالیاتی اداروں انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) اور ورلڈ بینک کا غلام بن جاتا ہے، نتیجتاً مقروض ملک اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کے قابل ہی نہیں رہتا۔
بدقسمتی سے پاکستان کا شمار بھی انہی مقروض ممالک میں ہوتا ہے، پاکستان قرضوں کی زنجیر میں ایسے جکڑا ہوا ہے کہ قرضوں سے نجات پانے کی کوئی امید نظر نہیں آ رہی ہے۔ حیران و پریشان کن بات یہ ہے کہ پاکستان کا ہر فرد آئی ایم ایف کا مقروض ہے، میں بھی مقروض ہوں اور آپ بھی مقروض ہیں۔
معیشت کو مضبوط کرنے کے لیے آئی ایم ایف سے مزید قرض لینے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ حیرانی تو اس بات پر ہوتی ہے کہ معیشت مضبوط ہونے کی بجائے اور بھی کمزور ہوتی جا رہی ہے۔ یہاں پر ایک سوال یہ بھی بنتا ہے کہ ان قرضوں سے ہمیں آخر ملا تو کیا ملا؟ ہمیں تو یہ بھی نہیں معلوم کہ قرض کب اور کیوں لیا گیا اور کس کی اجازت سے قرض لینے کے لیے آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے پاس گئے؟ اور آخرکار اس قرض سے ہمیں فائدہ کیوں نہیں ملا؟
پاکستان کا قرض کتنا؟
اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی حالیہ رپورٹ کے مطابق پاکستان کا اندرونی قرض 30 ٹریلین روپے کے قریب ہے، بیرونی قرضہ تقریباً ساٹھ ٹریلین روپے ہے جبکہ آئی ایم ایف کا قرضہ 7 ارب 29 کروڑ ڈالر ہے۔
قرض میں حرج کیا ہے؟
قرضہ لینے میں کوئی برائی نہیں ہے اگر یہ سرمایہ کاری اور ترقیاتی منصوبوں کے لیے لیا جائے اور بعد میں واپس کیا جائے لیکن پاکستان میں قرضے عام طور پر ایسے منصوبوں پر خرچ کیے گئے ہیں جو واپس کرنے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتے۔ اگر حالات جوں کے توں رہے اور ہماری عادات بھی، تو مجھے خدشہ ہے کہ پاکستان کھبی بھی قرض ادا نہیں کر پائے گا۔
آج پاکستان قرضوں کی دلدل میں بری طرح سے پھنس چکا ہے اور پریشان کن صورت حال یہ ہے کہ قرض کی واپسی نہیں بلکہ قرضوں پر سود کی قسط ادا کرنے کے لیے ہمیں مزید قرضے لینے پڑ رہے ہیں، قرضوں کے بوجھ کی وجہ سے پاکستان اپنی آزادی اور خودمختاری سے ہی محروم ہو چکا ہے، اگر پاکستان کے قرضے اسی رفتار سے بڑھتے رہے تو پاکستان کو مکمل طور پر ڈیفالٹ ہونے سے کوئی بھی نہیں بچا سکتا۔
قرض کا پیسہ خرچ کہاں ہوتا ہے؟
اصل میں قرض کا پیسہ حکمران اپنے اوپر خرچ کرتے ہیں جس سے ان کے بچے بھی مستفید ہو رہے ہیں جبکہ قرض اتارنے کی ذمہ داری ہمیشہ عوام کے کمزور کندھوں پر ڈال دی جاتی ہے، عوام کو گروی رکھ کر قرض لیا جاتا ہے اور آج یہ عالم ہے کہ ملک ڈیفالٹ کے قریب ہے۔
قرض، مگر کس لئے؟
اگر یہ قرض تعلیم کے نام پر لیا جاتا ہے تو آج ہمارے بچے پرائیویٹ تعلیمی اداروں میں کیوں تعلیم حاصل کر رہے ہیں؟ اگر یہ قرض صحت عامہ کے لیے لیا جاتا ہے تو پھر ہم کیوں پرائیویٹ ہسپتالوں میں لٹ رہے ہیں؟ اگر یہ قرض سڑکوں کی تعمیر کے لیے لیا جاتا ہے تو کیوں ہماری سڑکیں کھنڈرات کا منظر پیش کر رہی ہیں؟ اگر یہ قرض تعمیر و ترقی کے لیے لیا جاتا ہے تو پھر ہم تنزلی کا شکار کیوں ہیں؟
اگر یہ قرض بچوں کی دیکھ بھال کے لیے لیا جاتا ہے تو ملک میں زیادہ تر غریب کا بچہ ہی کیوں پیدا ہوتے ہی مر رہا ہے؟ اگر یہ قرض یوٹیلٹی سٹورز پر دی جانے والی سبسیڈی کے لیے لیا جاتا ہے تو وہ کون سی اشیاء ہیں جن پر سبسیڈی دی جاتی ہے؟
یہ قرض آخر کہاں خرچ ہوتا ہے؟ اسی قرض سے یہ لوگ راتوں رات امیر سے امیر تر ہوتے جا رہے ہیں اور عوام غریب سے غریب تر ہوتی جا رہی ہے۔
کرنا کیا ہے؟
اتنا قرض لینے کے باوجود آج بھی ہمیں تعلیم، صحت، روزگار اور ترقی میسر نہیں اور ہم آگے کے بجائے پیچھے کی طرف جا رہے ہیں جبکہ اتنا قرض لینے کے بعد بھی ہم مزید قرضوں کے پیچھے بھاگ رہے ہیں۔
قرض لینے کی بجائے ہمیں ایسے متبادل ذرائع کی طرف جانا چاہیے جن کی بدولت ہمیں قرض لینے کی ضرورت ہی نا پڑے، امدادی و خیراتی پروگرام بند کیے جائیں، کارخانے لگانے چاہئیں تاکہ ملک میں روزگار کے مواقع پیدا ہوں اور قرض لینے اور چکانے کے اس گول چکر کا خاتمہ کیا جا سکے۔
حکومتی اخراجات میں فوراً کمی کی جائے، قرضوں کی منظوری پارلیمنٹ سے لینی چاہیے، ایماندار کمیشن قائم کیا جائے جو مکمل اور شفاف تحقیقات کرے کہ قرضے کیوں لیے گئے اور ان کو کہاں خرچ کیا گیا؟
جب تک پاکستان قرضوں کی دلدل سے باہر نہیں نکلتا تب تک کسی بھی صورت معاشی استحکام حاصل نہیں ہو سکتا۔ اس کے ساتھ ساتھ آئین اور قانون کی حکمرانی ہو گی تو پاکستان کے تمام مسائل حل ہو سکتے ہیں۔
نازیہ ایک گریجویٹ اور بلاگر ہیں۔