طالبات پر پابندی: سیکورٹی خدشات کا جواز میری سمجھ سے باہر ہے
مہرین خالد
یونیورسٹی سے آ کر سکون کی نیند سوئی، جب نیند سے اٹھی اور موبائل دیکھا تو ایک دوست کا میسج موصول ہوا تھا جو کہ جامعہ گومل کی طرف سے جاری کردہ ایک اعلامیہ تھا۔ اعلامیہ دیکھ کر معلوم ہوا کہ جامعہ میں طلبہ و طالبات کے ایک ساتھ گھومنے پھرنے پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔
اس وقت میرے دماغ میں دو ہی باتیں گھوم رہی تھیں؛ ایک یہ کہ جب جب میں صحافت کے کسی بھی ورکشاپ کا حصہ بنی ہوں تو وہاں پر اپنے تعارف میں ڈیرہ اسماعیل خان اور جامعہ گومل کے ذکر نے بہت سے لوگوں کو پریشان کیا ہے، ساتھ یہ سوال بھی کہ یہ شہر اور جامعہ کہاں پر واقع ہے تو ان لوگوں کو اپنے علاقے اور جامعہ کے بارے میں بتانا میرے لیے ہمیشہ فخر کی بات ہوتی ہے کہ ہماری جامعہ میں نہ صرف پورے پاکستان سے بلکہ غیرملکی طلباء بھی پڑھنے آتے ہیں لیکن دوسری جانب اس اعلامیہ سے ہم دنیا کو اپنا کون سا روپ دکھا رہے ہیں کہ جہاں دنیا چاند پر پہنچ گئی ہے وہیں پر ہم ابھی تک جنس کی تفریق میں جکڑے ہوئے ہیں۔
دوسری بات اس اعلامیے کی جو قابل غور ہے وہ یہ کہ
"Female students are directed to be careful and limit themselves just in their classrooms and the department common rooms.”
یہ بات ہمارے لئے لمحہ فکریہ ہے کہ جہاں تعلیمی اداروں میں طالبات کو خودمختار بنانے کی بات کی جاتی ہے اور اپنے حقوق کے بارے میں انہیں آگاہی دی جاتی ہے وہاں پر کیا اس قسم کی پابندیاں انسانی حقوق کی پامالی نہیں؟
اس خبر کے بعد خدشہ یہ بھی ہے کہ والدین بھی اپنی بچیوں کی جامعہ میں پڑھائی یر پابندی لگا دیں۔
پہلے ہی ہمارے معاشرے میں خواتین کا شمار کمزور طبقے میں ہوتا ہے ایسے میں اس قسم کے اقدامات سے ان کی کمزوری کو مزید بڑھانا یا انہیں نظرانداز کرنا اور مزید ان میں خوف و ہراس پیدا کرنا کسی ظلم سے کم نہیں، ضرورت اس امر کی ہے کہ جامعہ کی انتظامیہ طلبہ و طالبات کے لیے تربیتی سیشنز کا انعقاد کرے تاکہ ان میں مزید آگاہی و شعور پیدا کیا جا سکے۔
اعلامیہ دیکھ کر اپنی ایک داستان یاد آئی جب ایک بین الاقوامی خبررساں ادارے کے لیے اپنی جامعہ کی کسی ایک یا دو خصوصیات پر مجھے وی لاگ بنانا تھا۔ اس وی لاگ کے لیے باقاعدہ وائس چانسلر سے ملاقات کر کے ان سے درخواست کی جس پر وائس چانسلر نے اپنے دستخط کر کے کہا کہ آپ آزادی سے اپنا کام کر سکتی ہیں۔
چونکہ میں خود اس جامعہ کی طالبہ ہوں اس لیے یہ وڈیو لاگ بنانا میرے لیے باعث مسرت اور باعث افتخار تھا کہ اپنی جامعہ کا مثبت تاثر پوری دنیا کے سامنے پیش کروں گی لیکن افسوس کہ مجھے بندوق کے سائے میں کام کرنا تھا، کیسے کرتی؟
اس قدر سخت سکیورٹی۔۔ جہاں بھی جاتی سیکورٹی والے آ کر تفتیش کرتے اور ثبوت مانگتے کہ کس بنا پر میں یہ کام کر رہی ہوں۔ اور ہر بار مجھے وہ درخواست دکھانا پڑتی۔
اس تجربے کی روشنی میں رئیس الجامعہ کا یہ جواز کہ "the decision was taken due to ‘security reasons’ ” میری سمجھ سے باہر ہے۔
اک نجی ٹی وی کے ساتھ گفتگو میں وائس چانسلر جامعہ گومل پروفیسر ڈاکٹر شکیب نے بتایا کہ جامعہ کی طالبات کو کلاس روم اور کامن روم تک محدود کرنے کا فیصلہ سیکورٹی وجوہات کی بنا پر لیا گیا، اس بات سے ظاہر ہوتا ہے کہ جامعہ گومل میں طالبات کو سیکورٹی خطرات لاحق ہیں۔ یہاں سوال یہ بنتا ہے کہ یہ سکیورٹی خطرات کیا طلبہ کو نہیں لاحق؟
کیا طلبہ جامعہ گومل کا حصہ نہیں کہ جن کو سیکورٹی خطرات کے بنا پر تحفظ فراہم کیا جائے؟
سوال یہ بھی بنتا ہے کہ سیکورٹی وجوہات کا طلبہ و طالبات کے مل بیٹھنے یا آپس میں بات کرنے سے کیا تعلق ہے؟
ملکی اور غیرملکی خبر رساں اداروں میں یہ خبر گردش کرتی رہی لیکن کسی نے اس سوال کو اجاگر نہیں کیا کہ طالبات کو جامعہ میں مخصوص جگہ تک محدود رکھنا کیا انسانی حقوق کی خلاف ورزی نہیں؟
اس سے زیادہ افسوسناک بات اور کیا ہو سکتی ہے کہ طلبہ و طالبات کا اس اعلامیہ کے خلاف آواز اٹھانا تو دور کی بات اس کے بارے میں انہوں نے بات تک کرنا بھی گوارا نہیں کیا۔
عرض ہے کہ ڈیرہ اسماعیل خان پسماندہ ہونے کے ساتھ ساتھ کافی عرصہ سے قتل و غارت، فرقہ واریت اور نسلی و لسانی تضادات کا شکار علاقہ رہا ہے اور کئی قیمتی جانیں ان تضادات کی نذر ہو چکی ہیں، بہت سے لوگ ان حالات کی وجہ سے ذہنی طور پر بری طرح متاثر بھی ہوئے ہیں۔
ہماری تعلیمی ادارے اس خطے کی ایک موثر طاقت ثابت ہو سکتے ہیں بشرطیکہ وہ عملی طور پر اپنا مثبت کردار ادا کریں، اس نظام کو بہتر بنانے میں انہیں اہم کردار ادا کرنا ہو گا اور تعلیمی اداروں میں جنس کی اس تفریق کو ختم کرنا ہو گا تاکہ ایک پرامن معاشرہ پروان چڑھے اور دنیا کو ہم اپنا مثبت چہرہ دکھا سکیں۔