زندگی اک خوبصورت تحفہ، بیشتر انسانوں کیلئے ایک عذاب بھی!
شمائلہ آفریدی
زندگی سب سے خوبصورت تحفہ ہے لیکن یہ دنیا میں بسنے والے بیشتر انسانوں کیلئے عذاب بھی بن جاتی ہے۔ ایک عام آدمی کو یہاں بے شمار مسائل کا سامنا ہے، خاص طور پر موجودہ وقت کسی عذاب سے کم نہیں ہے۔
اگر دیکھا جائے تو سب سے بااثر انسان جس کو زندگی کی ہر سہولت میسر ہے، کسی چیز کی کمی نہیں ہے، جب آپ اسے ملیں گے تو وہ بظاہر آپ کو بڑا خوش و خرم نظر آئے گا لیکن جب اپنی پریشانیاں بتائے گا تو آپ اپنی مشکلات بھول جائیں گے۔
زندگی میں خوشی کا احساس ہم سے روٹھ گیا ہے؛ کسی چیز میں مزہ نہیں آتا، کوئی کسی چیز سے خوش نہیں ہے، ہر کوئی مسائل کا ذکر اور الجھا ہوا نظر آتا ہے، لوگ اپنے آپ سے ناخوش، اپنے پیاروں سے ناخوش، کچھ بھی، کوئی بھی کسی کو اچھا نہیں لگتا۔
دوسری جانب انسان اس دنیا میں سکون کی تلاش میں دوسروں کا خون بہا رہا ہے، ظلم و بربریت کا بازار ہے، اور گرم ہے، ایسا کوئی ناجائز کام جو آج کا انسان دوسرے کے ساتھ کر نہ رہا ہو، انسانی خون کی ہولی کھیلنے میں اس نے کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔ اسے لگتا ہے کہ ایسا کرنے سے اسے خوشی نصیب ہو گی، اس کیلئے وہ بہت سا پیسہ بھی پانی کی طرح بہاتے ہیں مگر ان کو سکون ہے نہ آرام، وہ کبھی خوش نہیں رہ سکتے۔
مایوسی بڑھ گئی ہے؛ کبھی انسان خود سے سوال کرنے لگتا ہے کہ وہ اس دنیا میں کیوں آیا ہے، اسے کیا ضرورت تھی، انسان پیدا ہی نہ ہوتا، کاش پرندہ ہوتا۔
ایک انسان میں بھی ہوں؛ زندگی مجھے بھی کبھی تناؤ، مایوسی کے شکنجے میں جکڑ لیتی ہے جہاں آزادی حاصل کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ میرا بھی دل تنگ ہوتا ہے، کوئی کام کرنے کا دل نہیں چاہتا، کوئی مجھ سے بات کرے مجھے اچھا نہیں لگتا، میں چپ کا روزہ رکھ لیتی ہوں۔
لیکن پھر سوچتی ہوں کہ اس دنیا میں آئی ہوں تو ایسے تو نہیں چلے گا، پھر ایک نئی امید کے ساتھ اٹھ جاتی ہوں اور اپنے روزمرہ کے کاموں میں مصروف ہو جاتی ہوں۔
میں سمجھتی ہوں کہ انسان کا اچھا دوست اور رازدار خدا کے بعد انسان خود ہے۔ جب آپ خود خوش نہیں ہوں گے تو پھر آپ دوسروں کو بھی خوشی نہیں دے سکتے۔ زندگی میں، کبھی بھی کہیں بھی کچھ بھی، برا ہو جائے تو اپنے اندر کے مثبت خیالات کو ختم نہیں کرنا چاہیے۔
آج کے دور میں ایسا انسان جس کی زندگی میں سکون ہے تو وہ کائنات کا خوش نصیب انسان ہے۔ اس دنیا میں یہ تناو، یہ اداسی اس لئے بڑھ گئی ہے کہ ہم نے ملنا جلنا چھوڑ دیا ہے، ایک دوسرے کے دکھ سکھ میں شریک نہیں ہوتے۔ ہمارے دل بہت تنگ ہو چکے ہیں، ہم خود غرض ہو گئے ہیں، ہم نے ہمدردی کم کر دی ہے اور اپنی ذات تک محدود ہو گئے ہیں۔
مجھے لگتا ہے کہ ایسی دنیا جس کی ہر چیز پھیکی سی ہو چکی ہے، ہر سو افرتفری کا عالم ہے، ایسے میں صرف وہ انسان جو اللہ کو خلوص دل کے ساتھ سجدہ کرتا ہے اور ضرورت مندوں کی مدد کرتا ہے اسے زندگی کا سکون حاصل ہے۔ اگر کسی کی مدد کرنا ہمارے اختیار میں ہے تو یہ موقع کبھی ہاتھ سے مت جانے دیں۔ شاید ضرورت مندوں کی دعا سے ہماری تقدیر میں حائل رکاوٹیں دور ہوں اور ہمیں بھی سکھ چین نصیب ہو پائے۔