شمائلہ آفریدی
ہم ایسے معاشرے میں رہتے ہیں جس کی بنیاد اسلامی اصولوں کے مطابق رکھی گئی ہے، جس میں ایک دوسرے کو عزت و احترام دینا اولین انسانی صفت بتائی گئی ہے۔ اس معاشرے میں خاص کر خواتین کو بہت تحفظ حاصل ہے جس میں کوئی شک نہیں ہے۔
قبائلی علاقوں میں خواتین آزادانہ طور پر روزمرہ کے کام سرانجام دیتی ہیں۔ دور ہو یا نزدیک بے خوف و خطر جا کر کام کرتی اور عزت کے ساتھ گھر لوٹ کر آتی ہیں۔ اسی طرح شہر میں بھی خواتین اپنے کام خود کرتی ہیں چاہے وہ جاب ہو یا گھریلو کام کاج، ہم نے معاشرے میں ڈر و خوف جیسی بدگمانی کی فضا خود قائم کی ہے، ہم ہر وقت یہ کہتے ہیں کہ باہر کا ماحول اچھا نہیں ہے، لوگ اچھے نہیں جس کا زیادہ شکار وہ لوگ ہیں جن کے پاس علم تعلیم کی کمی ہے۔ ایسے لوگ بہت کمزور ہوتے ہیں، ان کی سوچ بھی کمزور ہو جاتی ہے۔
لوگوں کی باتوں کو کامیابی میں رکاوٹ نہ بننے دیں۔
اعلی تعلیم کے حصول کے بعد اور پھر قبائلی علاقے حسن خیل میں جرنلزم فیلڈ میں کام کے دوران مجھے بھی بہت سے لوگوں نے عجیب عجیب باتیں کر کے کافی خوفزدہ کیا تھا، یہ ڈر رہتا تھا کہ قبائلی معاشرے میں کام کیسے کروں گی؟ لوگ میرے ساتھ کیسا سلوک کریں گے؟ لیکن جب میں باہر نکلی اور کام شروع کیا تو میں نے ایسا کچھ بھی محسوس نہیں کیا جو میرے کام میں رکاوٹ بنتا۔ اپنا سفر اس طرح شروع کیا کہ سب کے احساسات دیکھتی، سمجھتی ہوں، اپنی قبائلی روایات کے تحت کام کرتی ہوں۔ مقامی لوگوں کے ساتھ محسوس ہی نہیں ہوتا کہ ان سے میں پہلی بار مل رہی ہوں، ایسا لگتا ہے کہ بہت پرانی جان پہچان ہے، کام کرتے وقت مجھے جو عزت ملی، احترام ملا اور رہنمائی ملی وہ میری سوچ سے بڑھ کر ہے۔
خود کو اچھا بنائیں لوگ آپ کی عزت کریں گے۔
وہ لوگ جو یہ کہتے ہیں کہ معاشرہ خراب ہے، لوگ خراب ہیں، خواتین کو اعلی تعلیم اور زندگی کے دوسرے شعبوں میں کام کرنے کیلئے نہیں نکلنا چاہیے۔ میں ان کو یہی کہنا چاہتی ہوں کہ اگر آپ ایک دوسرے کو عزت دیں گے، احساسات و جذبات کا احترام کریں گے تو یقین کے ساتھ کہتی ہوں کہ لوگ بھی آپ کی سوچ سے بڑھ کر آپ کی عزت کریں گے۔ جب آپ خود ٹھیک ہوں گے تو پوری دنیا ٹھیک ہو گی۔
تعلیم نے میرا اعتماد بڑھایا۔
والدین نے مجھے اعلی تعلیم کے زیور سے آراستہ کیا جس نے میرا ڈر و خوف ختم کر دیا۔ مجھ پر اعتماد کر کے باہر کے حالات سے مقابلہ کرنا سکھایا۔ تعلیم نے اتنا مضبوط بنایا کہ معاشرے میں کیسے رہنا ہے، کام کیسے کرنا ہے، لوگوں کے دل کیسے جیتنے ہیں، اپنا حق کیسے مانگنا ہے، ظلم کے خلاف شور کیسے کرنا ہے یہ تمام ہنر مجھے سکھائے۔ میں اپنے تمام کام خود کرتی ہوں، خود سفر کرتی ہوں۔ میں سمجھتی ہوں کہ وقت کے تقاضوں کے مطابق مرد ہو یہ عورت اس کو خود اس قابل بننا ہے کہ وہ کسی کی محتاج نہ ہو، وہ خود کو بہادر مضبوط بنائے، اپنے کام وہ خود کرے کیونکہ انسان پر ہر طرح کا برا اور اچھا وقت آ سکتا ہے۔ فیملی کی سپورٹ اور تعلیم ایک لڑکی کو انتہائی مضبوط بنا سکتی ہے۔
بیٹیوں کو سپورٹ کریں، تعلیم کے زیور سے آراستہ کریں۔
یہ درست ہے جب آپ ترقی کرتے ہیں تو ایسے لوگ موجود ہوں گے جو آپ کی راہ میں کانٹے بچھانے کی کوشش کریں گے لیکن وہ ہنر آپ کو سیکھنا چاہیے کہ کس طرح ان کانٹوں سے خود کو بچانا ہے۔ اعلی تعلیم لڑکی کو کبھی خراب نہیں کرتی، اگر آپ اس پر اعتماد کریں تو وہ کبھی غلط کام نہیں کرے گی۔
اگر آپ کی بیٹیاں یا بہنیں اعلی تعلیم کے حصول کی خواہش مند ہوں اور آپ انہیں تعلیم کے زیور سے آراستہ کر سکتے ہوں تو یہ سوچ کر انہیں کبھی اس زیور سے محروم نہ کریں کہ وہ پڑھ کر آزاد ہو کر غلط راستہ اختیار کریں گی یا ماحول خراب ہے ان کو کوئی نقصان نہ پہنچائے،بلکہ آپ ان کو ہمت دیں، ان کی طاقت بن جائیں، اس طرح وہ روشن ستارہ بن کر پورے معاشرے میں روشنی پھیلا سکتی ہیں۔