رعناز
گزشتہ ماہ پشاور سے واپس آتے ہوئے راستے میں، میں نے ایک نشے کے عادی فرد کو دیکھا جو سردی سے کانپ رہا تھا؛ جسے نہ اپنے بغیر جوتوں کے پیروں کا ہوش تھا نہ اپنے پھٹے پرانے کپڑوں کا، اسے تلاش تھی تو صرف ایک چیز کی اور وہ تھا نشہ!
اس کی اس حالت کو دیکھ کر میرے ذہن میں سوالات کی ایک لہر دوڑنے لگی جس میں پہلا سوال یہ تھا کہ اس کے اس مقام تک پہنچنے کی بنیادی وجہ کیا ہے؟ آیا صحیح تعلیم نہیں ملی یا ان صحیح تربیت نہیں ہوئی؟ کیا یہ دنیا کے لوگوں کے ظلم و ستم سے منشیات کی طرف راغب ہوا یا کسی لاحاصل خواہش کے غم کو دور کرنے کے لئے نشے کا سہارا لینا شروع کیا؟ نشے کی طرف راغب ہونے کی وجہ غلط دوستوں کی محفل تھی یا والدین کا اس کو وقت نہ دینا؟
دراصل یہ سوالات نہیں یہ وہ وجوہات ہیں جن کی بنا پر ایک بہت اچھا انسان منشیات کا عادی ہو کر اپنی زندگی تباہ کر دیتا ہے۔
جلبل کی کہانی
آئیے آپ کو سناتی ہوں ملاکنڈ کے رہنے والے جلبل نامی آدمی کی کہانی! جلبل ملاکنڈ کے ایک گاؤں بدرگئی کا رہنے والا ہے، نشے کا عادی ہونے سے پہلے وہ محکمہ پولیس میں اعلی عہدے پر فائز افسر تھا۔ وہ ایک اچھی نوکری کا مالک ہونے کے ساتھ ساتھ ایک بہترین شاعر بھی تھا جس کی شاعری آج بھی یوٹیوب پر موجود ہے۔
لیکن پھر اسے بری صحبت میسر آئی، برے دوست ملے اور یوں وقت کے ساتھ ساتھ وہ نشے کی طرف راغب ہوا۔ اب وہ ایک نشئی ہے۔ اس تباہ کن نشے کی بدولت اتنی عزت والا شخص آج ایک بھکاری بن چکا ہے۔ گلی گلی پھر کر بھیک مانگ کر اپنا نشہ پورا کرتا ہے۔ اس ظالم نشے کی وجہ سے وہ اپنا گھر بھول چکا ہے۔ اسے اب نہ اپنے ماں باپ یاد ہیں نہ بیوی بچے، یاد ہے تو صرف اپنا نشہ!
منشیات ایک ایسا موذی مرض ہے جس نے لاتعداد لوگوں (مردوں اور عورتوں) کی زندگیاں تباہ و برباد کر دی ہیں۔ منشیات میں مبتلا ہونا صرف انسان کی اپنی زندگی پر اثرانداز نہیں ہوتا بلکہ اس کے گھر، معاشرے اور قوم پر بہت گہرے مگر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
منشیات کے عادی افراد کے اپنی زندگی، گھر اور معاشرے پر اثرات
نشہ ایک ایسی بلا ہے جو ان افراد کے جسم کو اندر ہی اندر ختم کر دیتی ہے۔ وہ افراد طرح طرح کی اور بیماریوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ہر کوئی ان سے نفرت کرنے لگتا ہے۔ کوئی بھی ان کی طرف ہمدردی سے نہیں دیکھتا۔ اگر ہم بات کریں ان کے شادی اور گھر بسانے کی تو کوئی بھی ان کو اپنی بیٹی کا ہاتھ دینے کو تیار نہیں ہوتا کیونکہ یہ ایک سچ ہے کہ کوئی بھی ماں یا باپ اپنی بیٹی کی زندگی خراب نہیں کرنا چاہتا۔
منشیات کے عادی افراد کی اپنی زندگی تو عذاب بنتی ہی ہے مگر ان سے وابستہ گھر والوں کا جینا بھی دوبھر ہو جاتا ہے۔ خاندانی رشتوں میں نہ ختم ہونے والی دراڑیں پیدا ہو جاتی ہیں۔
منشیات کے عادی افراد کو حرام اور حلال کی تمیز نہیں رہتی جس کی وجہ سے سماجی مسائل انتہا کو پہنچ جاتے ہیں۔ چوری چکاری اور اس طرح کے اور جرائم میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ شاید ان ہی وجوہات کی بنا پر منشیات کو لعنت بھی کہا جاتا ہے۔
منشیات اور نوجوان نسل
نوجوان نسل جسے ملک کی ریڑھ کی ہڈی تصور کیا جاتا ہے، منشیات کی یہ عادت تیزی سے ان کی صلاحیتوں کو اگلتی جا رہی ہے، آخر نوجوان نسل کیوں نشے کی طرف راغب ہو رہی ہے، شاید اس کی بنیادی وجہ ملک میں بے روزگاری ہے۔ بے روزگاری سے تنگ پست ہمت لوگ اپنی ذمہ داریوں سے جان چھڑانے کے لئے منشیات کا سہارا لے لیتے ہیں۔ اسی طرح ایک وجہ جہالت بھی ہے، تعلیمی ماحول میسر نہ ہونے کی وجہ سے انسان بدی اور بہتری میں فرق نہیں کر سکتا۔
زیادہ تر لوگ نفسیاتی مسائل، ذہنی دباؤ اور مختلف الجھنوں سے وقتی طور پر نجات حاصل کرنے کے لیے منشیات کا سہارا لیتے ہیں لہذا اس عفیرت سے نمٹنے کیلئے ہمیں بیک وقت کئی محاذوں پر لڑنا ہو گا جن میں سرفہرست معاشی یا پھر تعلیمی محاذ ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ منشیات فروشوں کے خلاف ایک مہم شروع کر کے ان کو جڑ سے ختم کر دینا چاہیے تاکہ ملک میں ہزاروں اور لاکھوں کی تعداد میں لوگ اس جان لیوا مرض سے چھٹکارا پا سکیں۔ منشیات کے عادی افراد کے جسمانی علاج کے ساتھ ساتھ ان کا ذہنی علاج بھی کرنا چاہئے۔ ان مریضوں کی نفسیات کے مطابق ان کی کونسلنگ ہونی چاہیے۔ غرض ان طریقوں سے منشیات کے عادی افراد کا علاج ہو جائے گا اور وہ پھر ملک کی ترقی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے سکیں گے اور اپنے ملک کو مضبوط اور مستحکم بنا سکیں گے۔
آپ کا کیا خیال ہے شروع کرتے ہیں مہم منشیات اور منشیات فروشوں کے خلاف؟
نوٹ: رعنا ٹیچر اور کیپس کالج مردان کی ایگزیم کنٹرولر ہیں اور صنفی اور سماجی مسائل پر بلاگنگ بھی کرتی ہیں۔