افغانستان میں مرکز کا افتتاح: ایدھی صاحب ناراض کیوں ہو گئے تھے؟
حمیرا علیم
بین الاقوامی رضاکاروں کے دن پر رضاکارانہ خدمات کے ذریعے یکجہتی کا اظہار کیا جاتا ہے اور رضاکارانہ طور پر مثبت تبدیلی لانے کے لیے انسانیت کی اجتماعی طاقت کو فروغ دینے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یہ خاص دن مقامی، قومی اور بین الاقوامی سمیت تمام سطحوں پر رضاکاروں کے کام کو فروغ دیتا ہے۔ اقوام متحدہ کے رضاکاروں نے 1985 میں بین الاقوامی رضاکار دن کی بنیاد رکھی۔
رضاکار تعلیم، جانوروں کے ساتھ، کمیونٹی پروجیکٹ کے لیے، کھیل، ہسپتال جیسے شعبوں میں کام کر رہے ہیں۔
یوں تو پاکستان میں کئی رضاکار تنظیمیں کام کر رہی ہیں لیکن ایدھی فاؤنڈیشن پاکستان میں ایک فلاحی ادارہ ہے جو 1951ء میں عبدالستار ایدھی کی طرف سے قائم کیا گیا تھا۔ ایدھی فاؤنڈیشن کی سرگرمیوں میں 24 گھنٹے کی ایمرجنسی سروس شامل ہے۔
عبد الستار ایدھی نے صرف 5000 روپے کے ساتھ ان کا پہلا فلاح و بہبود مرکز قاٗئم کیا اور پھر ایدھی ٹرسٹ قائم کیا۔ آج، ایدھی فاؤنڈیشن پاکستان میں سب سے بڑی فلاح و بہبود کی تنظیم ہے۔ فاؤنڈیشن کے ملک بھر میں 300 سے زائداور تمام دنیا میں شاخیں پھیلی ہوئی ہیں۔ ایدھی صاحب سادہ روایتی پاکستانی لباس پہنتے جس کو وہ بیس سال سے استعمال کر رہے تھے۔
فاونڈیشن کے بجٹ میں سے وہ اپنی ذات پر ایک پیسہ بھی نہیں خرچ کرتے تھے۔ ان کے بیٹے فیصل بتاتے ہیں کہ جب افغانستان میں مرکز کا افتتاح کیا جا رہا تھا تو عملہ نے مہمانوں اور صحافیوں کے بیٹھنے کے لیے کرسیاں خرید لیں۔ جب ایدھی صاحب وہاں آئے تو وہ اس بات پر سخت خفا ہوئے کیونکہ ان کے خیال میں یہ رقم کسی ضرورت مند کی مدد پر خرچ کی جا سکتی تھی۔ اس رات آپ کلینک کے فرش پر ایمبولینس کے ڈرائیوروں کے ساتھ سوئے۔
آج ایدھی فاؤنڈیشن ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔ ایدھی صاحب چاہتے تھے وہ پاکستان کے ہر 500 کلومیٹر پر ہسپتال تعمیر کریں۔ گرچہ ان کو احترام کے طور پر مولانا کا لقب دیا گیا لیکن وہ ذاتی طور پر اس کو پسند نہیں کرتے تھے۔ انہوں نے کبھی کسی مذہبی اسکول میں تعلیم حاصل نہیں کی۔ وہ اپنے آپ کو مسیحا کہلوانا پسند کرتے تھے کیونکہ انسانیت کی خدمات پر پاکستان میں انسٹیٹوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن سے ڈاکٹری کی اعزازی سند دی گئی تھی۔
وہ اس بات کو بھی سخت ناپسند کرتے تھے جب لوگ ان کی یا ان کے کام کی تعریف کرتے۔ وہ حکومت یا سابقہ مذہبی جماعتوں سے امداد بھی نہیں لیتے تھے کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ ان کی امداد مشروط ہوتی ہے۔ ضیاء الحق اور اطالوی حکومت کی امداد انہوں نے اسی خیال سے واپس کر دی تھی۔
1997ء گینیز بک آف ورلڈ ریکارڈ کے مطابق ایدھی فاؤنڈیشن کی ایمبولینس سروس دنیا کی سب سے بڑی فلاحی ایمبولینس سروس ہے۔ ایدھی صاحب بذات خود بغیر چھٹی کیے طویل ترین عرصہ تک کام کرنے کے عالمی ریکارڈ کے حامل رہے۔ اور ریکارڈ بننے کے بعد بھی انہوں نے زندگی بھر چھٹی نہیں لی۔
ان کی وفات کے بعد ان کی بیگم بلقیس صاحبہ اور ان کے بعد ان کے بیٹے فیصل صاحب فاونڈیشن کے منتظم ہیں۔فاونڈیشن کے زیراہتمام یتیم خانہ، لاوارث خواتین اور بچوں کے لیے شیلٹر ہومز اور مردہ خانہ بھی کام کر رہے ہیں۔
ایدھی فاونڈیشن کے علاوہ چھیپا، الخدمت، سیلانی اور دیگر رضاکار تنظیمیں بھی پاکستان کے مختلف علاقوں میں لوگوں کی خدمت میں مصروف ہیں۔