خان صاحب۔۔ تحفہ لینے کا ہے بیچنے کا نہیں!
تحریر شاہ نواز آفریدی
تحفہ دینے والا جب کسی بڑے، معزز اور ملک کے حکمران خاندان سے تعلق رکھتا ہو، سمجھدار ہو اور وسائل بھی رکھتا ہو تو وہ تحفہ بھی اپنی شان و شوکت اور عہدے کے مطابق دیتا ہے، کیونکہ تحفے سے اس کی شان و شخصیت اور خاندان یعنی نسل کی پہچان ہوتی ہے۔
اب اس کے برعکس تحفہ لینے والے کی بات کریں تو تحفہ دیا جاتا بھی ایسے ہی فرد یا افراد کو ہے کہ جو اس تحفے کے مطابق شخصیت اور حسب و نسب بھی رکھتے ہوں مثلاً کسی مسلمان کو تحفے میں بائبل نہیں دیا جاتا یا عیسائی کو ہندوؤں کی مقدس کتاب یا دوسری چیزیں نہیں دی جاتیں۔
اسی سلسلے میں ایک کہاوت بھی مشہور ہے کہ ایک بادشاہ کے دربار میں ایک سمجھدار درباری تھا جس کو لوگوں کے اور گھوڑوں وغیرہ کے حسب و نسب کی معلومات ہوا کرتی تھیں۔
درباری سے جب بادشاہ نے اپنے عربی گھوڑے کے بارے میں معلومات مانگیں تو اس نے بتایا تھا کہ یہ گائے کے ساتھ بڑی ہوئی ہے، پوچھا کیسے تو کہا کہ گھوڑا گھاس منہ میں لے کر سر اٹھا کر کھاتا ہے جبکہ اس گھوڑے نے گائے کی طرح سر نیچے کر کے کھائی۔
دوسری جگہ اس نے بادشاہ کی بیوی کے نوکروں سے سلوک کی وجہ سے ان کی نسل کے بارے میں بھی بتایا تھا اور آخر میں جان کی امان مانگنے کے بعد بادشاہ کے سوال پر بادشاہ کی نسل کے بارے میں کہا تھا کہ آپ نسلی بادشاہ نہیں بلکہ کسی گڈریے کی اولاد معلوم ہوتے ہیں اور توجیح یہ پیش کی کہ آپ انعام میں غلہ اور بکریاں دیتے ہیں تو اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بادشاہ گڈریے کی نسل سے تعلق رکھتے ہیں کیونکہ نسلی بادشاہ انعام یا تحفے میں ہیرے اور جواہرات جیسی چیزیں دیتے ہیں۔
اب کہاوت سے نکل کر بات کرتے ہیں سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی کہ جب وہ کسی مسلمان ملک کے وزیراعظم یا دوسرے سربراہ کو تحفہ دیتے ہیں تو اس میں بھی وہ اپنی شان و شوکت، خاندان کے جاہ و جلال اور بالخصوص اپنے مذہب کو مدنظر رکھتے ہیں، اور تحفہ دینے والے کو بھی دیکھتے ہیں کہ وہ کون ہے جس کو سعودی شہزادہ تحفہ دے رہے ہیں، تو ظاہر سی بات ہے کہ وہ کبھی کسی ایسے شخص کو تحفہ نہیں دیں گے جو اس کی قدر و قیمت اور اس کی لاج نہ رکھ سکتا ہو۔ یا مختصراً یہ کہ وہ تحفے کے قابل نہ ہو۔
اگر کوئی شخص تحفے میں ایسی چیزیں دے جو انسان کے اپنے استعمال کے لئے ہوں یعنی جو ہر وقت اس کے ساتھ ہو جیسے گھڑی ہاتھ پر، ہار گلے میں، بٹن کف (ہاتھوں) پر، انگوٹھی انگلی پر، پین جیب میں، یہ وہ تحفے ہیں جو ہر جگہ اور ہر وقت انسان کے ساتھ ہوتے ہیں۔ ان تحفوں کا مطلب و مقصد یہ ہوتا ہے کہ دینے والا جب آپ سے کسی بھی محفل یا کہیں بھی ملے تو یہ آپ کے ساتھ دیکھنا چاہتا ہے۔
سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے پاکستان کے سابق وزیراعظم عمران خان کو جو تحفے دیئے ہیں اور جو آج کل قومی و بین الاقوامی میڈیا میں ان دنوں زیربحث بھی ہیں، جیسا کہ میڈیا پر دکھایا جاتا ہے کہ سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے سابق وزیراعظم عمران خان کو تحفے میں گھڑی، پین، انگوٹھی اور کف کے بٹنز پر مشتمل ایک پورا سیٹ دیا تھا۔
اب آتے ہیں چند سوالات کی طرف! کیا ایک ملک کا بادشاہ دوسرے ملک کے وزیراعظم کو تحفہ یا تحائف دے تو اس کو بیچنا کیسے لگے گا؟
کیا ایسا کرنے سے تحفہ دینے والے کی توہین نہیں ہو گی؟ اس کے دیئے گئے تحفے بازار میں بیچے گئے تو اس پر بات کرتے ہوئے خاندان کے دیگر لوگوں کو وہ کیسے ”فیس” کریں گے؟
کیا وہ پھر کسی کو تحفہ دیں گے بالخصوص ہمارے ملک کے کسی شخص کو؟ اور اگر وہ کسی کو تحفہ دیں گے بھی تو کیا وہ اس کے ساتھ تحفہ کے استعمال کے بارے کچھ کہیں گے؟
اور آخری سوال کہ تحفہ بیچنے والا ان کے ساتھ اس معاملے پر بات کرتے ہوئے کیا محسوس کرے گا؟