سعدیہ بی بی
کینسر کا مرض انتہائی سنجیدہ نوعیت کا موضوع ہے جس پر میں کافی عرصے سے لکھنا چاہ رہی تھی۔
آج کل کی تیزرفتار زندگی میں ہم لوگ بس اندھادھند جیسے بھاگتے ہی جا رہے ہیں اور اس روٹین کا شکار ہو کر زہنی اور جسمانی طور پر غیرصحتمند زندگی گزار رہے ہیں۔
زندگی کی بھاگ دوڑ میں چھوٹی موٹی بیماریوں کی طرف تو توجہ دنیا ہی نہیں دیتی مگر پھر قوت مدافعت کے اس کھیل میں انسانی جسم کئی بار ہار کر کچھ موذی بیماریوں کا شکار ہو جاتا ہے؛ ان ہی بیماریوں میں سے ایک ہے ”کینسر” کینسر لاعلاج ہونے کے ساتھ ساتھ جان لیوا بھی ثابت ہوتا ہے۔
اس بیماری کی صرف علامتوں کا علاج ہو سکتا ہے۔
ہمارا جسم جن چھوٹے سے چھوٹے زندہ حصوں سے مل کر بنا ہے اسے ”سیل” کہتے ہیں؛ یہ سیل اپنے آپ میں ہی پوری زندگی ہوتا ہے۔ ہمارا جسم ٹریلینز کی تعداد میں سیلز سے بنا ہے۔ یہ سیلز جسم میں ٹوٹتے اور ختم ہوتے رہتے ہیں اور ان کی جگہ نئے سیل بنتے ہیں۔
ہمارے جسم کے کچھ اعضاء ایسے ہیں جن کے سیلز بہت آہستہ سے ضاٸع ہوتے ہیں اور کچھ ایسے ہیں جو کبھی بھی ضاٸع نہیں ہوتے جیسے دماغ کے سیلز ہیں، یہ کبھی بھی ختم نہیں ہوتے اور ہمیشہ رہتے ہیں۔ کچھ سیلز ایسے ہیں جو بہت تیزی سے تبدیل ہوتے ہیں جیسے ہمارے خون کے سیلز ہیں۔ یہ نوے دنوں کے بعد پرانے سارے ختم ہو جاتے ہیں اور نئے بن جاتے ہیں۔ تو یہ توڑ پھوڑ کا اور زندگی موت کا کھیل ہمارے تمام سیلز میں ہر وقت چلتا رہتا ہے۔ تو اللہ نے کیا خوبصورت نظام بنایا ہے اس لیے ہم سب کو پتہ ہونا چاہیے کہ یہ ہے کیا؟
کینسر آخر ہے کیا؟
کینسر ایک ایسی بیماری ہے جس میں جسم کے اعضاء کے کچھ سیلز نارمل نہیں رہتے۔ پھر وہ ایسے بڑھنا شروع کرتے ہیں جو کسی باقاعدہ جسمانی ضابطے کے تحت نہیں ہوتا بلکہ اپنی مرضی سے یعنی بے لگام طریقے سے بڑھتے ہیں۔
لہذا اگر کسی کو جگر کا کینسر ہو گا تو اس کا مطلب ہو گا کہ جگر کے سیلز جسمانی احکامات کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اپنی مرضی سے بڑھ رہے ہیں۔
اسی طرح جسم کے مختلف اعضاء کا کینسر ہو سکتا ہے ۔ سر کے بالوں سے لے کر پاٶں کے ناخن تک جسم کے کسی حصے میں بھی کینسر ہو سکتا ہے۔
کینسر کوئی باہر سے جراثیم کی وجہ سے نہیں ہوتا۔ کینسر کوئی سوزش نہیں بلکہ جسم کے اپنے ہی سیلز بے قابو ہو جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر ”اس گھر کو آگ لگ گٸی گھر کے چراغ سے” یعنی اپنے گھر میں ہی لٹیرے پیدا ہو جاتے ہیں۔اپنے سیلز خود ہی ایبنارمل ہو کر خود کو کھانے لگ جاتے ہیں۔
کینسر کے نقصانات
سب سے پہلا نقصان یہ ہے کہ جس جگہ کو کینسر ہو وہاں پر اردگرد غیرمعمولی دباؤ کو بڑھائے گا یعنی جب کسی کے دماغ میں رسولی ہوتی ہے، وہ جب بڑھنا شروع ہوتی ہے تو اس کے قریب جو بینائی کی رگ جا رہی ہوتی ہے جب اس پر دباؤ پڑتا ہے تو بندہ نابینا ہو جاتا ہے
دوسرا بڑا نقصان یہ ہے کہ اس کے کچھ سیلز ٹوٹ کر خون کے ذریعے یا کسی اور ذریعے سے کہیں اور چلے جاٸیں جن کو ہم عام زبان میں کینسر کی جڑیں کہتے ہیں۔ یہ جڑیں جہاں جاٸیں گی اُس عضو کو بھی کمزور کر دیں گی۔
تیسرا نقصان یہ ہے کہ کینسر ایسے مادے پیدا کرتا ہے جو جسم کے سارے کے سارے کاموں کو متاثر کرنا شروع کر دیتے ہیں۔
کینسر کی علامات
کینسر کی کچھ علامات ہیں: آپ کے جسم پر کہیں بھی گلٹی کا نمودار ہونا۔ اگر آپ کے جسم کے کسی بھی سوراخ سے یعنی منہ، کان، ناک وغیرہ ان میں سے اگر خون آنا شروع ہو جائے، اگر آپ کو مسلسل کھانسی ہو رہی ہے جو ٹھیک نہیں ہو رہی، اگر آپ کو مسلسل قبض رہ رہی ہے جو ٹھیک نہیں ہو رہی، اگر آپ کا وزن مسلسل کم ہو رہا ہے؛ پیٹ میں پانی کا بھر جانا، بھوک نہ لگنا وغیرہ وغیرہ۔
اگر ان علامات میں سے کوئی ایک ہو تو کینسر ہو بھی سکتا ہے اور نہیں بھی ہو سکتا۔
کینسر کے مخلتف اسٹیجز
کینسر کے عموماً چار اسٹیجز ہوتے ہیں؛ اگر آپ کا کینسر صرف اُسی عضو کے اندر ہے یعنی کسی کو چھاتی میں کینسر ہے اور صرف اسی میں ہے تو یہ پہلا سٹیج ہے۔ اگر وہاں سے نکل کر جو اُس کے قریب قریب حدود ہیں ان میں بھی چلا گیا ہے تو یہ دوسرا سٹیج ہے ۔ اگر اور زیادہ پھیل گیا ہے تو یہ تیسرا سٹیج ہے اور اگر پورے جسم میں پھیل گیا تو یہ چوتھا اور آخری اسٹیج ہے۔ پہلے اور دوسرے اسٹیج میں اگر بیماری کو پکڑ لیا جائے تو یہ قابل علاج ہے۔ لیکن اگر تیسرے سے چوتھے سٹیج پر چلا جائے تو تھوڑا خطرناک ہو جاتا ہے اور علاج بھی لمبا ہو جاتا ہے۔
کیا کینسر کے مہنگے علاج تک مفت رسائی ممکن بنانے سے اس مرض پر قابو پایا جا سکتا ہے؟
سعدیہ بی بی طالب علم ہیں اور مختلف سماجی اور معاشرتی موضوعات پر بلاگز بھی لکھتی ہیں۔