انسان سے "مرد” بننے کا سفر
نوشین فاطمہ
جب آپ کا کوئی بہت پیارا ہمیشہ کے لئے بچھڑ جائے تو اس کا دکھ دل میں جیسے ایک برچھی کی صورت میں پیوست رہتا ہے۔ جیسے کوئے کند آلے سے دل کے ٹکڑے کر رہا ہو۔
اس دکھ کا اظہار آنسوؤں کی شکل میں ہوتا ہے۔ یہ انسانی جذبات ہیں۔
مگر پدرشاہی نے تو جذبات کی بھی صنف طے کر دی ہے یا یوں کہیے کہ جذبات کے اظہار کے طریقے قابل قبول اور ناقابل قبول کے خانوں میں بانٹ دیے ہیں۔
مرد کو درد کیوں نہیں ہو سکتا؟
ایک میت میں جانا ہوا۔ وہاں گزر جانے والی خاتون کا بیٹا غم سے نڈھال اپنے آنسوؤں سے لڑ رہا تھا؛ دلاسے دینے والے تو بہت مگر ان کی حوصلہ افزائی کی شرائط عجیب تھیں:
"مرد ایسے کمزور نہیں ہونے چاہئیں”
"جوان مرد ہو، تم کو باقی گھر والوں کو سنبھالنا ہے”
"اب تم گھر کے مرد ہو”
"حوصلہ رکھو، مرد ایسے روتے نہیں ہیں”
سوچا تو پھر کیسے روتے ہیں؟ عجیب بات ہے! عام زندگی اور شادی میں تو ایسی باتیں سننے کو ملتی ہیں مگر یہاں تو ماں کا جنازہ سامنے پڑا ہے، بیٹا درد محسوس کر رہا ہے اور وہ ایک نارمل انسان کی طرح رو کر اپنے غم کا اظہار کر رہا ہے مگر لوگ "ناقابل قبول، ناقابل قبول” کے نیزوں سے اسے مزید چھلنی کر رہے ہیں۔
غم کا اظہار تو اس کا بنیادی حق ہے، کسی جنس یا صنف کی اجارہ داری کے بغیر۔
مجھے لگا کہ چاہے مرد ہو یا عورت، پدرسری معاشرے کے غیرقدرتی نظام کی چکی میں سب ہی پس رہے ہیں۔
میں ایک فیمنسٹ ہوں، اس پر فخر کرتی ہوں اور اسی لئے فیمنزم کو ہی صحت مند معاشروں کی بقا کے لئے ضروری سمجھتی ہوں۔ فیمنزم تمام اصناف اور جنس کے لئے مساوی حقوق کی بات کرتا ہے۔
آخر تمام اصناف کا دشمن ہے کون؟
میڈیا کی اکبری، اصغری اور مردانہ آئیڈئیلزم
تو بات ہو رہی تھی کہ مرد ایسے نہیں روتے۔ کیوں نہیں روتے، کیا مرد کو درد نہیں ہوتا؟
ٹی وی پر پاکستانی سوپ آپرا دیکھو تو وہ بھی دو خانوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ ایک خانے میں ہمیشہ کی طرح ظلم سہتی خاتون کا مرکزی کردار یعنی ہیروئین کا ہوتا ہے تو دوسرے خانے میں ناقابل عمل طور پر ہر پہلو سے مکمل ہونا ہی مرد کے لیے ضروری ہے یعنی ہیرو ہو تو ہر فن مولا۔
اسے انسان سے صرف مرد بنا دیا گیا ہے، جس کو ہر حال میں کمانا ہے، نہیں تو وہ کماؤ پوت نہیں بلکہ ہڈحرام ہے۔
اگر مرد حساس ہو تو بھی تبرا بھیجنے والوں کی تو لاٹری نکل آتی ہے۔
میڈیا جہاں عورت کے لئے اکبری اصغری کے خانے میں بٹا ہے تو مرد کے لئے بھی اس نے آئیڈئیلزم کا کیڑا ایجاد کیا ہے۔
غیرمتوازی نصاب
میں خود کو ایک ایسا طالب علم مانتی ہوں جو تمام زندگی علم حاصل کرتا ہے اور سیکھنے کے عمل سے گزرتا رہتا ہے۔
مجھے یوں لگتا تھا کہ انسان پڑھ لکھ کر تو دنیا اور عاقبت سنوار ہی سکتا ہے؛ شاید پڑھے لکھے لوگ ہم سے الگ کوئی بہت ہی خوبصورت کچھ توازن والی دنیا بساتے ہوں گے مگر یونیورسٹی کے اساتذہ کے ساتھ بہت سی بیٹھکوں میں ان کے پدرسری کا شکار خیالات اور نظریات جان کر یہ غلط فہمی بھی اپنی موت آپ مر گئی۔
کیا واقعی کتابوں میں ایسا کچھ نہیں ہے جو لوگوں کے نظریات کو بہتری کی طرف مائل کر سکے؟
شاید ہمارا دشمن ہمارا نصاب بھی ہے جو انسان کو مرد بنانے کی پریکٹس میں اس کی بہت سے بنیادی حقوق چھین کر اس کے رونے پر پابندی لگاتا ہے اور عورت کو آنسوؤں کا محتاج۔
مذہبی ٹھیکے دار
جمعے کا دن ہو اور مسجد سے مولوی کی دھاڑ سنائی نہ دے تو دن مکمل نہیں ہوتا۔ اور عورتوں کے لئے جہنم کی بددعا کے بغیر تو مانو ان کا وعظ بھی نامکمل ہوتا ہے۔
عورتوں کے ساتھ ساتھ ان مردوں کا بھی جہنم واصل ہونا ضروری ہے جو عورتوں کو "گناہوں” سے نہ روکیں گویا عورتیں بھیڑ بکری ہیں جنہیں مرد ہانکتے ہیں اور وہ بھی مولوی کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق۔
مذہب کے ان ٹھیکے داروں نے انسان کو مرد بنانے کے چکر میں اس کو محبت سے کوسوں دور کر دیا۔ میرا ماننا ہے کہ محبت تو ہر مذہب کی بنیاد ہوتی ہے۔
پدرشاہی
میں الگ الگ جائزے کے ذریعے تمام جنسوں کے سب سے بڑے دشمن کو ڈھونڈ رہی ہوں، جس نے اس معاشرے کو اور اس میں بسنے والوں کو زندگی کی خوبصورتی محسوس کرنے سے محروم کر دیا ہے۔ اور تبھی دماغ میں جیسے ایک جھماکا سا ہوتا ہے اور سامنے نمودار ہوتا ہے "پدرشاہی” کا لفظ۔
جی ہاں! یہی ہے مرد اور عورت، دونوں کا سب سے بڑا دشمن؛ اسی نے عورتوں کے ساتھ مردوں کو بھی روندا ہے۔
اور اسی نے مرد کو عورت کی گالی دینے کی اجازت دے کر اس سے اخلاقیات چھین لیں۔ اس کو بچپن سے یہ طعنے کہ ”عورتوں کی طرح رونا نہیں” سنا سنا کر دل کا دورہ ہونے کی شرح کو دوگنا کر دیا۔
اگر ہر حال میں صرف اسی کو پیسے کما کر لانے ہیں تو زیادہ تر چوری ڈاکے اور قتل میں بھی زیادہ تر ایک کو ملوث کر دیا۔
اور اگر اس کے کردار کی باز پرس نہیں ہوتی اور ”مرد ہے، کر سکتا ہے” والا راگ الاپا جائے گا تو اس کا کردار اس سے چھین لیا گیا۔
اس نظام نے اس پر یہ بھی ظلم کیا کہ وہ جس سے شادی کر لے اس کے ناز بھی اس کو چوری چھپے اٹھانے ہوتے ہیں۔
پدرشاہی نظام شدید عورت دشمن تو ہے ہی لیکن اس نے مرد بنانے کے چکر میں اس سے انسانوں والے بنیادی حقوق چھین لیے۔
ویسے بہت کم لوگ ہی اس لفظ پدرسری سے واقف ہیں؛ بس سوشل سرکل یا جنہوں نے ان سے ملحقہ مضمون پڑھے ہوں وہی اس سے واقفیت رکھتے ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ان کے ذہن میں این جی او، انگریز اور ایسی آزادی جس میں سب ادھ ننگے ہوں صرف وہی آتے ہیں۔
ساتھ میں اگر سونے پہ سہاگہ موافق لفظ فیمنسٹ بھی استعمال ہو گیا تو پھر تو مانو پدرسری نظام وینٹیلیٹر پر ہی چلا جاتا ہے۔
ہم فیمنسٹ تو اعتدال کی بات کرتے ہیں جو کہ ہر جنس کے حق میں ہے۔ سوچیے زندگی کتنی خوبصورت ہے اور پدرسری نظام سے آزاد معاشرے کے لوگ اس کو کتنا مزے سے گزار رہے ہیں۔
زندگی ایک بار ہی ملتی ہے اس لئے اس نظام کو خواتین ہی نہیں مردوں نے بھی بدلنا ہے تاکہ موجودہ کے ساتھ ساتھ آنے والی نسل صرف مرد بننے کے چکر میں بنیادی انسانی حقوق سے بھی ہاتھ نہ دھو بیٹھے۔
کیا آپ بھی پدرسری نظام کو تمام جنسوں کا دشمن سمجھتے ہیں؟
نوشین فاطمہ ایک سماجی کارکن اور بلاگر ہیں۔