کیا حق ڈھونڈنے سے ملتا ہے؟
حدیبیہ افتخار
مجھے اپنے حقوق تلاش کرتے ایک عرصہ بیت گیا ہے۔
شاید آپ سوچ رہے ہوں گے کہ یہاں حق کے ساتھ لفظ تلاش کا استعمال کیوں کیا گیا ہے۔ کیا حق ڈھونڈنے سے ملتا ہے؟
نہیں! حق کو تلاش نہیں کیا جاتا اور نہ ہی یہ کسی کے لینے اور دینے کا محتاج ہوتا ہے۔ مگر ہمارے معاشرے میں جگہ جگہ بڑی بے رحمی سے عورت کے حق پر ڈاکہ ڈالا جاتا ہے۔ یوں عورت حق کی کھوج میں سرگرداں اپنی پوری زندگی ہی گزار دیتی ہے۔
حق کا "لینا” اور "دینا” یہ ایسے الفاظ ہیں جو ہمارے معاشرے میں زبان زدعام ہیں۔ عورت ایک انسان ہے اور ہر انسان بنیادی حقوق کے ساتھ پیدا ہوتا ہے، عورت بھی لیکن معاشرہ اس کے حقوق صلب کر لیتا ہے تو پھر عورت کو اپنا حق تسلیم کروانے کے لئے جدوجہد کرنا پڑتی ہے۔
مرد ہو یا عورت، جب اس دنیا میں آتے ہیں تو پیدائش سے لے کر موت تک وہ اپنا حق ساتھ لاتے ہیں، دونوں کو حق حاصل ہے کہ وہ جیسے چاہیں اپنی مرضی کے مطابق زندگی گزار سکتے ہیں، کسی دوسرے کو ان کی زندگی میں بے جا دخل اندازی کا کوئی حق نہیں پہنچتا۔
عورت اور اس کا حق
عورتوں کے حقوق کے بارے میں تو بہت سے سیمنار منعقد ہوتے ہیں اور ہر جگہ عورتوں کے حقوق کے بارے میں بات ہوتی رہتی ہے۔ اور تو اور اگر کبھی مردوں کی محفل میں بھی یہ بات زیر بحث لائی جائے تو وہ طنزاً یا مذاق اڑاتے ہوئے پوچھتے ہیں کہ آخر وہ کون سا حق ہے جو عورتوں کو حاصل نہیں ہے۔ ان کے بقول، مذہب اور ملکی قوانین نے عورتوں کو تمام حقوق "دیئے” ہیں۔ یہ جو "دئیے” کا لفظ ہے اسی میں مسئلہ ہے۔ حق یا تو تسلیم کیا جاتا ہے یا پھر صلب، کاغذوں میں شاید حقوق تسلیم کئے گئے ہوں مگر عملی طور پر اس کے الٹ نظر آتا ہے۔
حق پر قبضہ، کس کا؟
یہ بات ٹھیک ہے کہ خواتین کے حقوق کے تحفظ کے لئے کئی قوانین بنائے گئے ہیں۔ آئین پاکستان بھی خواتین کے حقوق کی ضمانت دیتا ہے۔ مگر پدرشاہی کا شکار معاشرتی روایتیں عورتوں کے حقوق کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہیں۔ اپنی فطرت سے مجبور بیشتر مرد عورتوں کے حقوق کو غصب کرنے میں ہر وقت مگن رہتے ہیں۔
پسند کی شادی کا حق
کبھی شادی میں لڑکی کی پسند ناپسند کا موضوع چھڑ جائے تو کچھ پڑھے لکھے ہونے کا دعویٰ کرنے والے افراد بڑے پراعتماد انداز میں کہہ دیتے ہیں کہ ہم تو اپنی بیٹی کی شادی اس کی رضامندی سے کریں گے، بیٹی کی مرضی کے بغیر تو رشتہ ہوہی نہیں سکتا کیونکہ یہ اس کا بنیادی حق ہے۔
مگر جلد ہی ان سب دعوؤں کی قلعی کھل جاتی ہے۔ لڑکی کسی وجہ سے رشتہ سے انکار کر بھی دے تو پھر نا تو کسی کو مذہب یاد آتا ہے نا ہی قانونی حقوق کی پاسداری، اگر کچھ یاد رہتا ہے تو وہ ان کی انا اور غیرت ہوتی ہے اور یوں ایک بیٹی کا یہ حق بھی پدرشاہی انا کی نذر ہو جاتا ہے۔
تعلیمی حقوق
آئین پاکستان میں تعلیم حاصل کرنا ہر بچے کا بنیادی حق ہے، مگر اس کے باوجود آج بھی کئی دیہات اور شہری علاقوں میں اس سوچ کے ساتھ بچیوں کو تعلیم سے محروم رکھا جاتا ہے کہ یہ پیسے اور وقت کا ضیاع ہے۔
اگر کوئی عورت تعلیم کے حصول کے لئے آواز اٹھائے بھی، جو اس کا بنیادی حق بھی ہے، تو وہ زبان دراز اور باغی کہلائی جاتی ہے۔
میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ اگر تعلیم، خوراک، اور اظہار رائے عورت کا حق ہے تو پھر ان کو حاصل کرنے کے لئے کئی عشروں سے جاری یہ جدوجہد کیسی؟
عورت کے حقوق کی جنگ کب تک؟
جب سے ہوش سنبھالا ہے اس معاشرے میں عورتوں کو اپنے حق کے لئے لڑتے ہی دیکھا ہے۔
عورت کبھی اپنی مرضی سے شادی نہ ہونے پر دلبرداشتہ ہوتی ہے، کبھی ماں باپ کی عزت کی خاطر چپ رہنے میں عافیت سمجھ کر اداس زندگی گزارتی ہے تو کبھی پڑھائی مکمل کرنے کے لئے والدین کی منتیں کرتی رہتی ہے۔
جب عورت تھکی ہاری اپنی خوشیاں نہ ملنے پر یہ کہہ کر خود کو تسلی دیتی ہے کہ اپنی بیٹی کے ساتھ یہ ظلم نہیں ہونے دے گی تو وہاں بھی شوہر کی صورت میں ویسے ہی مرد سے نبردآزما ہوتی ہے جو باپ کی شکل میں والدین کے گھر میں چھوڑ کر آئی تھی۔
اور یوں عورت اپنی زندگی کا ایک خوبصورت حصہ معاشرے سے اپنے حقوق تسلیم کروانے میں گزار دیتی ہے۔ اس خواہش کے ساتھ کہ کاش کسی جدوجھد کے بغیر اس کے حقوق تسلیم کر لئے جائیں۔
عورت بھی اس معاشرے کا حصہ ہے اور اسے بھی اپنے حق کے استعمال کا ویسا ہی حق حاصل ہے جو کہ ایک مرد کو ہے۔
کیا عورت کا اپنی مرضی کے مطابق زندگی گزارنا اس کا بنیادی حق نہیں؟
حدیبیہ افتخار ایک فیچر رائیٹر اور بلاگر ہیں۔