ڈئیر فادر۔۔ مجھے شہزادی بنا کر آپ بادشاہ بن گئے!
سدرہ ایان امجد علی
ہمارے ہاں بیٹی کی بات ہوتی ہے تو اسے پڑھانے اور لکھانے کے ساتھ ساتھ والدین اسے بیاہنے کے لیے جہیز بھی جمع کرنے کی فکر کرتے ہیں کیونکہ معاشرے میں یہ سوچ جڑیں گاڑ چکی ہے کہ لڑکی کی پڑھائی سے نہ تو پیٹ بھرتا ہے اور نہ ہی سسرال کا گھر!
اور اسی جہیز کے لیے والد سالوں تک محنت کرتا ہے؛ اگر جہیز جمع ہو جائے تو لڑکی کی شادی ہو جاتی ہے اور اگر جمع نہیں ہو پاتا تو شادی رہ جاتی ہے۔ اور ایسے میں بہت ہی شادیاں بہت دیر سے ہو جاتی ہیں۔
پھر اگر شادی کے دن کی بات کریں تو ہم لوگوں کو ہماری خوشیوں میں شامل ہونے کے لیے بلاتے ہیں لیکن وہ آتے ہیں صرف جج کرنے؛
لڑکی لڑکے سے بڑی ہے
لڑکی کے لیے تو کچھ کیا ہی نہیں ہے
لڑکا گنجا ہے، دولت کے لیے شادی کروا دی
لڑکی کا رنگ تو بہت سانولا ہے
کھانا تو بالکل بے ذائقہ ہے!
انہیں یہ بات کیوں سمجھ نہیں آتی، جس کھانے پر وہ تنقید کر رہے ہیں اس کھانے کے پیچھے کسی کے بوڑھے باپ کے برسوں کی محنت ہے، جس دلہا دلہن پر وہ تنقید کر رہے ہیں انہیں اپنی زندگی میں ان کی ضرورت ہی نہیں ہے لیکن انہوں نے آپ کو صرف اپنی خوشیوں میں شامل ہونے لیے بلایا ہے ان میں نقص نکالنے کے لیے نہیں، جب انہیں خود ایک دوسرے کے سٹیٹس، غربت، ایک دوسرے کے کسی طرح سے دِکھنے پر کوئی اعتراض نہیں تو ہم کون ہوتے ہیں اعتراض کرنے والے؟ جہیز زیادہ دیا تو ہمیں واہ واہ کر کے کیا ملتا ہے؟ نہیں ملتا تو ہم کیوں باتیں بنائیں؟
وقت کے ساتھ ساتھ کچھ لوکوں میں شعور پیدا ہونے لگا ہے کہ وہ خود جہیز کا مطالبہ نہیں کرتے لیکن والدین پھر بھی کسی نہ کسی طرح سے جہیز اکٹھا کرنے کی کوشش کرتے ہیں کیونکہ انہیں یہ فکر ہوتی ہے کہ لوگ کیا کہیں گے۔
میرا ماننا یہی ہے کہ ایک ایسا باپ جس کے پاس کوئی دولت نہیں ہوتی، جس کے پاس صرف اپنی محنت ہوتی ہے اس باپ کے پاس صرف دو راستے ہوتے ہیں کہ یا تو وہ اپنی بیٹی کو پڑھا لکھا کر اچھی تعلیم دلوائے اور اسے کسی کا محتاج نہ بنائے، جبکہ دوسرا راستہ یہ ہوتا ہے کہ وہ تعلیم دلوانے کی جگہ بیٹی کو بیاہنے کی تیاریاں کرے اور جو پیسہ اس کی تعلیم پر لگتا ہے وہ اس کی شادی اور جہیز پر لگائے۔
لیکن پھر بھی وہ اپنی بیٹیوں کو تعلیم دلوانے کے ساتھ ساتھ ان کی شادی دھوم دھام سے کروانے کی کوشش کرتے ہیں۔
لوگ کیا سمجھتے ہیں، کیا سوچتے ہیں مجھے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا لیکن میرے نزدیک ایک باپ کے پاس دو راستے ہوتے ہیں کہ یا تو وہ بیٹی کو پڑھا لکھا کر اس کی زندگی سنوارے یا وہ بس سج دھج کر بنا شعور کے کسی اور کے گھر جائے جہاں اسے یہ تک سمجھ نہ آتی ہو کہ اس رشتے کو کس طرح سے نبھانا ہے۔
میں وہ بیٹی ہوں جسے اس بات کا بہت زیادہ احساس ہے کہ اس کے والدین نے اس کے لیے کیا کیا ہے۔ انہوں نے مجھے پیدا کیا، مجھ پر اپنی زندگی کے بہترین 23 سال انویسٹ کیے، میری خواہشات اور ضروریات پوری کیں، مجھے 16 سالہ تعلیم دلوائی، مزید بھی دلوا رہے ہیں، خود تو وہ کسی دوسرے شہر میں نہیں گئے لیکن مجھے اپنے صحافتی ایکسپوژر کے لیے بہت سے شہروں میں بھیجا، میری تربیت کی اور آج مجھے اتنا ایمپاور اور باشعور بنایا کہ نہ تو مجھے مہنگی شادی کرنے کا شوق رہا نہ جہیز کی خواہش، کیوں کہ ان کی تئیس سالہ محنت نے ایسا بنایا کہ مجھے مٹیریلِسٹِک چیزوں میں دلچسپی ہی نہیں رہی، مجھے مہنگی شادی نہیں ان کی خوشی چاہیے، مجھے جہیز اور حق مہر نہیں مضبوط اور مستحکم رشتے چاہئیں۔
میرے لیے اس بات کی کوئی اہمیت نہیں رہی کہ میں کتنا مہنگا کپڑا پہنوں کیونکہ میری تربیت بہت ہی قیمتی لوگوں نے کر کے مجھے بہت خاص بنایا ہے، میں اب چاہے جتنے بھی سستے کپڑے پہنوں میں خاص ہی رہوں گی کیونکہ میں نہیں سمجھتی کہ خاص بننے کے لیے مہنگے کپڑے ضروری ہوتے ہیں۔
میں جب بھی ایسے لوگوں کو دیکھتی ہوں جنہیں اپنی شادیوں پر مہنگے کپڑے، جوتے اور ڈھیر سارے زیورات خوشی دیتے ہیں تو مجھے محسوس ہوتا ہے کہ میں ان لوگوں سے بہت آگے نکل چکی ہوں کیونکہ مجھے قیمتی زیورات اور کپڑے نہیں بلکہ وہ قیمتی لوگ چاہئیں جنھوں نے اپنی زندگی کا ایک بڑا حصہ مجھ پر کام کر کے مجھے ایسا بنایا کہ میرے لیے قیمتی مٹیریَلز نہیں بلکہ رشتے ہو گئے چاہے وہ والدین ہوں، استاد ہوں، دوست ہوں یا چاہے کسی اجنبی سے انسانیت کا رشتہ!
اس سے پہلے مجھے کبھی ان چیزوں کا احساس نہیں ہوا لیکن آج میں صرف اپنے والدین کے لیے لکھ رہی ہوں، اپنے والد کے لیے لکھ رہی ہوں جنھوں نے محدود وسائل میں ہم پانچ بہن بھائیوں کو اس قابل بنایا کہ وہ زندگی میں کسی دوسرے بندے کے محتاج نہ رہیں۔
میں اپنے والد کے لیے لکھ رہی ہوں؛ ڈئیر فادر! مجھے احساس ہے جو آپ نے میرے لیے کیا، جو ہم سب کے لیے کیا، آپ کو بہت سی چیزیں اب یاد نہیں کیوں کہ آپ بوڑھے ہونے لگے ہیں لیکن مجھے یاد ہیں؛ ایک ایک چیز، ایک ایک بات! بس اس کے بعد میری خواہش ہے کہ اب میں آپ کے لیے کروں کچھ، آپ کی تئیس سالہ انویسٹمنٹ کے بدلے بہت کامیاب ہونا چاہتی ہوں کہ آپ دیکھ لیں اور محسوس کریں کہ آپ وہ آرٹسٹ ہیں جنھوں نے مجھے بنایا…!
آپ کی زندگی کے تئیس سال، آپ کی محنت ضائع نہیں گئی، آپ نے ایک زندگی سنوار دی اور آپ کی یہ محنت تب تک رنگ لاتی رہے گی جب تک کہ میں زندہ ہوں اور اپنا وقت انویسٹ کر کے معاشرے میں شاہکار نہ بنا لوں۔ آپ کوئی حکمران نہیں لیکن پھر بھی مجھے شہزادی بنا کر خود میرے لیے بادشاہ بن گئے!