خدارا۔۔۔۔ چپ رہیے!
ارم رحمان
ہر بات میں بولنا اور ہر بات پر بولنا ضروری نہیں ہوتا بلکہ زیادہ تر انتہائی غیرضروری ہوتا ہے۔
کسی خوشگوار سی بارونق محفل میں کسی خاتون کو دیکھ کر پوچھنا آپ کی بیٹی یا بیٹے کی منگنی کیوں ٹوٹی؟ آپ کی بیٹی گھر بیٹھی ہے؟ طلاق کی نوبت کیسے آ گئی؟ میڈیکل میں داخلہ نہیں ملا کیا؟ نمبر بہت کم تھے؟ ملازمت سے نکال دیا گیا یا چھوڑنا پڑی؟ آپ کے بیٹے پر پرچہ ہوا تھا، کیا بنا؟ سنا ہے آپ کے شوہر نے دوسری شادی کر لی؟
سوچ کر بتائیے کہ آپ کو ان سارے سوالات میں سے ایک بھی ضروری لگا؟
جب اگلا بندہ آپ سے خود کچھ کہے تب آپ بولتے اچھے بھی لگیں، تب بھی بہت محتاط ہو کر بولنا چاہیے کہ کہیں آپ کے الفاظ کا چناؤ کسی کے دل پر چرکے نہ لگا دے۔
الفاظ نیزے اور برچھی کی طرح کلیجہ چیرتے ہیں۔ یہ جتنے ہارٹ فیل ہوتے ہیں ان میں سے اکثر اسی دکھ میں ہوتے ہیں کہ لوگ کیا کہیں گے، بدنام کریں گے، ہم زمانے میں رسوا ہو جائیں گے، ہمیں طعنے دیں گے، جینا دوبھر کر دیں گے، دنیا ہمیں جیتے جی مار ڈالے گی۔۔
بتائیے دنیا کون ہے؟
"ہم سب دنیا ہیں۔”
ہم ہیں لوگوں کو ذلیل و رسواء کرنے والے، بے جا تنقید کرنے والے، بہتان لگانے والے۔ کچھ لوگ اتنی ڈھٹائی سے کہتے ہیں کہ میں تو جی بڑا صاف گو بندہ ہوں لگی لپٹی نہیں رکھتا یا رکھتی، ہم تو بولتے ہیں سچ کسی کو برا لگے تو لگتا رہے۔
تو خواتین و حضرات کہاں لکھا ہے کہ ہر وقت بلا سوچے سمجھے سچ بولا جائے۔ جس سچ سے فساد برپا ہو، لوگوں کے دل ٹوٹیں، تعلقات خراب ہوں اور بدمزگی پھیلے، وہاں خاموش رہنا بہترین ہے۔
سچ بولنے کی ایک ہی جگہ ہے؛ جب گواہی دینی پڑے کسی کی عزت اور پاکدامنی کی، جان و مال کی، عدالت میں مقدمہ نہ بھی چل رہا ہو اور حقیقت بتانی لازمی ہو جائے تب بولیے ورنہ اپنی "صاف گوئی” اور "دروغ گوئی” کو بالکل بھول کر "کم گوئی” پر اکتفا کیجیے۔
کسی کے گھر میں کیا چل رہا ہے؟ کیسے حالات ہیں؟ کیا دکھ اور تکلیفیں ہیں؟ اگر آپ کچھ مدد کر سکتے ہیں تو خاموشی سے کر دیجیے ورنہ خاموش رہیے، اپنے کام سے کام رکھیے، دل آزاری سے بڑا گناہ کوئی نہیں۔ اللہ تعالیٰ کی قدرت اور مظلوم کی آہ کے درمیان کوئی پردہ نہیں ہوتا اور مظلوم کسی بھی مذہب یا فرقے یا مسلک کا ہو اللہ کی شان کے خلاف ہے کہ وہ مظلوم کی داد رسی نہ کرے اس لیے کسی کے مذہب، فرقے، مسلک اور ذات پر کوئی تنقید نہ کیجیے، کسی کو حقارت سے مت دیکھیے اور کسی کے بارے میں وہ بات نہ کیجیے جو آپ اپنے خلاف سننا پسند نہیں کرتے۔
سب سے بڑھ کر آپ خود بتائیے کہ ان سارے اختلافات اور بحث مباحثے سے کچھ حاصل ہوا ہے کبھی سوائے بغض اور عناد کے، کبھی معاملات سدھریں ہیں سرعام کسی کو رسوا کر کے، بھری محفل میں کسی کا دکھ کرید کر؟ ہو سکتا ہے وہ اپنا غم بھلانے کے لیے اس تقریب میں موجود ہو۔
خدارا چپ رہیے!
اسی طرح عوامی جگہوں جیسے بس، وین یا سٹاپ پر کھڑے ہو کر اشارے بازی اور کسی سے اس کی ذاتی زندگی کے بارے میں سوال جواب انتہائی غیراخلاقی حرکت ہے۔ ملازمت کے دوران صرف اپنے کام پر دھیان دینا مناسب ہوتا ہے اس جگہ پر ذاتی سوال پوچھنا بہت ناگوار لگتا ہے۔
ہم سب لوگ آئے دن ان سب باتوں کا سامنا کرتے ہیں؛ کبھی ہم جھوٹ کا سہارا لیتے ہیں کبھی نظر انداز کرتے ہیں لیکن چہرے پر ناگواری کے تاثرات ابھر ہی آتے ہیں۔ بس گزارش یہ ہی ہے کہ چپ رہا جائے کیونکہ عالم کا علم اور جاہل کی جہالت چھپی رہتی ہے۔ اللہ نے خاموشی میں پردہ رکھا ہے۔
ہم سب کا بھی فرض ہے کہ ہم بھی پردہ رکھیں اور جس بات سے ہمارا کوئی لینا دینا، تعلق واسطہ ہے ہی نہیں اس میں بولنا، محض ٹانگ اڑانا ہے اور یہ مثبت انداز فکر نہیں۔
ہر وقت سچائی کا پرچار کرنا اور حقیقت پسندی کا داعی ہونا یہ کمال نہیں کیونکہ اپنے گناہ کا اظہار کرنا گناہ سے بھی بدتر ہے۔ تو جب اپنے گناہ کا اظہار کرنا منع ہے تو کسی دوسرے کی خطا یا دکھ پر لب کشائی کرنا کیسے پسندیدہ ہو سکتا ہے۔
خدارا! چپ رہیے اور دوسروں کو بھی خاموش رہنے دیں۔ بہت کے بھرم رہ جاتے ہیں، حالات درست رہتے ہیں۔ جس سچ سے دلوں میں نفرتیں بھر جائیں، جن رازوں کو افشا کر کے کوئی اپنی قدر و منزلت کھو دے اور کسی بات کو کریدنے سے کوئی خون کے آنسو رو پڑے، براہ مہربانی اس سے بچیے کیونکہ زبان میں ہڈی نہیں ہوتی لیکن دوسرے کی ہڈیاں تڑوانے کے لیے سب سے موثر ہتھیار ہے لہذا اس ہتھیار کو صرف بوقت اشد ضرورت ہی جبڑوں سے نکالیے ورنہ اسے آرام کرنے دیجیے۔
اللہ ہمیں سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!