دکھاوے کی محبت: لوگوں کی نظر لگ جاتی ہے
حمیرا علیم
سوشل میڈیا پر آئے روز کسی سلیبرٹی جوڑے کی طلاق کی افواہیں گردش کرتی ہیں، پھر ان کی طرف سے اس طلاق کی تصدیق کی جاتی ہے اور ساتھ ہی اپنے سابقہ شوہر اور بیوی کے لیے نیک تمناؤں کا اظہار کر کے یہ دعوی بھی کیا جاتا ہے کہ وہ ایک دوسرے کے لیے آئندہ بھی پیار اور احترام کا جذبہ رکھیں گے۔ اور بچے ہونے کی صورت میں یہ بھی اصرار کیا جاتا ہے کہ وہ ان کی پرورش میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھیں گے اور مل کر انہیں بہترین تربیت دیں گے۔
ان تمام حادثات میں، میں طلاق کو بھی ایک مہلک حادثہ ہی سمجھتی ہوں کیونکہ اس سے تین گھرانے متاثر ہوتے ہیں؛ مرد کا، عورت کا اور بچے، کئی پہلو ہیں جو غور طلب ہیں۔
نمبر ایک اسلام ہمیں یہ اجازت دیتا ہے کہ اگر ازدواج کے مابین کسی بھی طرح سے نبھا نہ ہو رہا ہو تو علیحدگی بہتر ہے۔اس لیے اگر یہ جوڑے یا کوئی بھی جوڑا علیحدگی اختیار کرتا ہے تو اس میں کوئی گناہ نہیں۔ دوسرے جس پر گزرتی ہے اندر کا حال تو وہی جانتا ہے ہم تو صرف وہ دیکھتے ہیں جو ہمارے سامنے ہوتا ہے۔ یہی کپلز اپنے بیڈروم تک کی تصاویر، جو کہ ایک نہایت ہی ذاتی معاملہ ہے اور اسلام سختی سے منع کرتا ہے کہ ان نجی معاملات کی تشہیر نہ کی جائے، کو سوشل میڈیا پر شیئر کر دیتے ہیں، اللہ جانے پس پردہ کیا مقصد ہوتا ہے شہرت یا پیسہ۔ لیکن کسی بھی صورت میں یہ فعل درست نہیں۔
اگر شہرت مقصود ہے تو یہ نہایت اوچھے ہتھکنڈے ہیں اور اگر پیسہ تو آپ لوگ پہلے ہی اچھا خاصا کما رہے ہوتے ہیں ان طریقوں سے کمانے کی کیا ضرورت ہے۔
تیسری بات جب آپ دکھاوے کی محبت کر رہے ہوتے ہیں تو کئی لوگوں کی نظر لگتی ہے۔ اور نظر تو اونٹ کو ہانڈی میں انسان کو قبر میں اتار دیتی ہے طلاق تو کچھ بھی نہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے منع فرمایا تھا کہ اپنی کامیابی کو سرعام بیان نہ کیا جائے کہ حسد اور نظر لگنے کا اندیشہ ہوتا ہے۔
اگر یہ کپلز کسی بھی وجہ سے دس پندرہ سال ساتھ رہ سکتے ہیں اور ایک دوسرے کے لیے اتنی محبت اور احترام رکھتے ہیں کہ طلاق کے بعد بھی ایک دوسرے کے لیے نیک خواہشات اور دعاؤں کا اظہار کرتے ہیں تو کیا وجہ ہے کہ وہ بچوں کی خاطر باقی کی زندگی بھی ساتھ نہیں گزار سکتے؟
کیونکہ علیحدگی کا سب سے زیادہ اثر بچوں کی زندگیوں اور ان کی شخصیت پر ہوتا ہے۔ اگر صرف ماں یا باپ بچوں کو پال سکتے تو اللہ تعالٰی کے لیے کچھ مشکل نہ تھا کہ مریم علیہ السلام کی طرح صرف والدہ کو بچے دیتا یا آدم علیہ السلام کی طرح بنا والدین انسانوں کو پیدا فرماتا۔ جوڑے بنانے کا مقصد ہی عزت، محبت، سکون، نسل انسانی کی افزائش اور تربیت اولاد ہے۔
اس لیے ہر جوڑے کو چاہیے کہ آپس میں بات کر کے مسائل حل کرنے کی کوشش کریں؛ اگر حل نہیں ملتا تو جیسا کہ اسلام سکھاتا ہے خاندان کے بڑوں کو انوالو کریں، کسی سائیکاٹرسٹ یا عالم دین سے میرج کاونسلنگ لیں۔
ہر مسئلے کا حل ہوتا ہے کوئی بھی چیز ناممکن نہیں لیکن اگر معاملہ برداشت سے باہر ہو جائے اور آخری حل علیحدگی ہی ہو تو یاد رکھیے طلاق کے بعد وہی جوڑا جو محرم رہ چکا ہے نامحرم بن جاتا ہے، اب ان کا آپس میں میل جول رکھنا کسی بھی صورت میں جائز نہیں اس لیے زیادہ انگریز بننے کی کوشش مت کیجئے۔ اپنے سابقہ زوج کے لیے پیار کا اظہار کرنے سے پرہیز کیجئے۔
آپ ایک مسلمان ہیں اور ایک اسلامی ملک کے باشندے ہیں جہاں یہ سب کچھ نہیں ہوتا۔ مانا کہ اسلام والدین کو بچوں سے ملنے ان کے اخراجات اٹھانے وغیرہ کا پابند کرتا ہے مگر یہ کہیں بھی نہیں لکھا کہ سابقہ زوج سے آپ کا میل جول جائز ہے آپ کو اسے نامحرم کی طرح ہی ٹریٹ کرنا چاہیے۔ ویسے بھی یہ بات بعید از قیاس ہے کہ اگر آپ کے دل میں دوسرے کے لیے اتنی ہی محبت اور عزت تھی تو علیحدگی کیوں اختیار کی؟
اس پہلو کو بھی ذہن میں رکھیے؛ شادی میں محبت اتنی ضروری نہیں جتنا احساس، احترام، وفاداری اور حقوق و فرائض کی ادائیگی ضروری ہے۔ ان جوڑوں میں علیحدگی کی وجوہات بھی یہی ہوتی ہیں۔ مرد کسی اور خاتون کے ساتھ افیئر رکھتا ہے، بیوی بچوں کا خرچ نہیں دیتا، عورت جھگڑالو ہے، اس کا احترام نہیں کرتی وغیرہ وغیرہ۔ ان میں سے کوئی بھی مسئلہ ایسا نہیں جو ناقابل حل ہو۔ تھوڑی سی کوشش اور انا کو کچلنے کی ضرورت ہے۔ اگر آپ واقعی ہی ساتھ رہنا چاہتے ہیں اور ایک دوسرے سے پیار کرتے ہیں تو یہ کرنا کچھ مشکل نہیں۔
اور جب کسی جوڑے میں علیحدگی ہو ہی جائے تو لوگوں کو بجائے تبصرے کرنے اور اندازے لگانے کے خاموشی اختیار کرنی چاہیے۔ ان کے دکھ اور تکلیف میں اضافہ کرنے کی بجائے ان کے لیے صبر اور سکون کی دعا کرنی چاہیے۔ بار بار ان سے وجوہات جاننے کے لیے سوال سے اجتناب کرنا چاہیے۔ ان کے کردار پر انگلی نہیں اٹھانا چاہیے۔ سوشل میڈیا پر کسی کے ذاتی معاملات پر تبصرے کرنے سے گریز کریں کیونکہ جب لوگ سوشل میڈیا پر کسی جوڑے کے پیچھے پڑ جاتے ہیں تو ان کی طلاق کروا کے ہی چھوڑتے ہیں۔
اللہ تعالٰی ہر جوڑے کو پیار محبت اور سکون عطا فرمائے!