خیبر پختونخوا: جیلوں میں گنجائش سے زیادہ قیدی، مسائل کیا درپیش ہیں؟
شازیہ نثار
جیل۔۔ قید خانے یا اصلاح کا مرکز، اس کا موازنہ تو تب کرنا آسان ہو گا جب جیلوں میں پابند سلاسل قیدیوں کو درپیش مسائل اور حکومت کی جانب سے دیئے گئے وسائل کو سامنے رکھ کر قیدیوں کی مشکلات کو پرکھا جا سکے۔ اور معاشرے میں بگاڑ اور لاقانونیت کے سبب جیلوں میں زندگی گزارنے والے ان جرائم پیشہ افراد کو کس طرح معاشرے کے لیے کارآمد شہری بنانے کی کوشش کی جا سکتی ہے؟
اب سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان میں جیل کا نظام کسی بھی جرائم پیشہ شخص کو مہذب اور پرامن بنا کر معاشرے کا کارآمد شہری بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے؟ اگر ہمارا جیل سسٹم یہ صلاحیت رکھتا تو آج ملک بھر کی جیلوں میں گنجائش سے کئی گنا زائد قیدی نہ ہوتے اور اگر ہاں تو پھر معاشرے میں امن و سکون کہاں ہے؟
آج ہم جیل سسٹم پر نظر ڈالیں گے۔ بات کی جائے اگر خیبر پختون خوا کی جیلوں کی تو اس وقت صوبہ بھر میں جیل کے باسی گوناگوں مسائل اور مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں۔ خیبر پختونخوا میں پشاور، مردان، ہری پور، بنوں، ڈی آئی خان اور کرک میں سینٹرل جیل، لکی مروت، کوہاٹ، ایبٹ آباد، سوات، مانسہرہ اور چترال میں ڈسٹرکٹ جیل جبکہ صوابی، چارسدہ، نوشہرہ، ملاکنڈ، ٹانک میں سب جیل اور ضم اضلاع میں مزید 14 سب جیلیں بھی مکمل طور پر آپریشنل ہیں مگر ضرورت سے زیادہ تعداد اور وسائل کی کمی کے باعث قیدیوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
1854 میں قائم سینٹرل جیل پشاور میں صرف 800 قیدیوں کو رکھنے کی گنجائش تھی مگر جرائم کی شرح میں اضافے صوبے کی سب سے بڑی جیل ہونے کی وجہ سے یہاں قیدیوں کی تعداد گنجائش سے ہمیشہ زیادہ رہی۔ اور نئے بیرکس بننے کے باوجود بھی سینٹرل جیل پشاور میں قیدیوں کی تعداد میں کمی نہ آ سکی اور اب بھی 3 ہزار قیدیوں کی جگہ میں 4000 سے زائد قیدیوں کو رکھا جا رہا ہے۔ ان قیدیوں میں سزائے موت کے 217، عمر قید کے 275، کم عمر قیدی 53 اور خواتین قیدیوں کی تعداد 83 ہے جبکہ انسداد دہشت گردی کے مقدمات میں 3 سو سے زائد قیدی بھی پابند سلاسل ہیں اور حوالاتیوں سمیت یہ تعداد 4 ہزار سے تجاویز کر چکی ہے۔
اسی طرح چارسدہ جیل میں 210 قیدیوں کی گنجائش ہے تاہم وہاں 450 قیدیوں کو رکھا جا رہا ہے، نوشہرہ جیل میں 180 کی جگہ 400 قیدی اور صوابی جیل میں 120 کی بجائے 500 قیدی اس وقت قید ہیں۔ اسی سے ملتی جلتی صورتحال بنوں، کوہاٹ، لکی مروت سمیت صوبے کی دیگر کئی جیلوں میں بھی پائی جاتی ہے۔
گنجائش سے زیادہ قیدیوں کو رکھنے سے صحت کے مسائل بھی بڑھ رہے ہیں؛ جگہ کم ہونے اور شولڈر ٹو شولڈر سونے اور ایک بیرک میں زیادہ قریب رہنے سے قیدی ایڈز، ٹی بی، یرقان، ہیپاٹائٹس اور سانس کی بیماریوں میں مبتلا ہو رہے ہیں۔ گذشتہ دنوں صرف مردان جیل میں ٹی بی کنٹرول پروگرام کے اہلکاروں نے قیدیوں کا معائنہ کیا اور صرف ایک دن میں ٹی بی سکریننگ کے دوران 60 قیدیوں میں سے چھ قیدیوں کا ٹی بی ٹیسٹ مثبت آیا، اور ان 6 میں سے 3 قیدیوں میں ملٹی ڈرگ ریزسٹنٹ ٹی بی کی تشخیص ہوئی۔
اس وقت پشاور سینٹرل جیل میں ایڈز کے 10، ٹی بی کے 2، ہیپاٹائٹس سی کے 15 جبکہ ہیپاٹائٹس بی کے 5 قیدی موجود ہیں۔ اسی طرح صوبے کی مختلف جیلوں میں ایڈز، ہیپاٹائٹس بی اور ہیپاٹائٹس سی میں مبتلا درجنوں قیدیوں کی موجودگی نہ صرف تشویش کی بات ہے بلکہ اس بات کا بھی خدشہ ہے کہ گنجائش کی کمی کی وجہ سے یہ خطرناک امراض دوسرے قیدیوں میں بھی آسانی سے پھیل سکتے ہیں ۔
جیلوں میں قیدیوں کو سازگار ماحول کی فراہمی سے جہاں جرائم کے عادی مجرموں کی اصلاح کرنے میں آسانی ہو گی تو وہیں قیدیوں کے مسائل کافی حد تک ختم ہو سکتے ہیں۔ صحت کے مسائل کے ساتھ ساتھ قیدیوں کو باتھ رومز کی کمی، گرمی میں دم گھٹنے، آپس میں لڑائی جھگڑوں اور سائیکلوجیکل مسائل کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے جبکہ گنجائش سے زیادہ قیدی ایڈمنسٹریشن کیلیے بھی درد سر ہوتے ہیں۔
آئی جی جیل خانہ جات سعادت حسن کے مطابق قانون میں بھی موجود ہے کہ جیلوں میں اورکراؤڈنگ نہیں ہونی چاہئے، ہمارے پاس جیلوں میں 13 ہزار کے قریب گنجائش ہے مگر اس وقت قیدیوں کی تعداد 15000 سے زائد ہے، ہمیں 2 ہزار سے زائد قیدیوں کو رکھنا پڑ رہا ہے، جرائم میں اضافہ کی وجہ سے جیلوں میں گنجائش کم پڑ رہی ہے، قیدیوں کی اصلاح و تربیت پر مکمل توجہ دے رہے ہیں اور صحت سے مطلق در پیش مسائل کو ترجیحی بنیادوں پر دیکھ رہے ہیں، اور ہر قسم کے امراض میں مبتلا قیدیوں کو علاج فراہم کیا جا رہا ہے۔