حمیرا علیم
”ہمارا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے۔ ہم کسی کو بھی اپنا دشمن نہیں سمجھتے اور چاہتے ہیں کہ ملک کی بہتری اور عوام کے مفاد کے لیے مل جل کر کام کریں۔۔۔” ابھی الفاظ اس کے منہ میں ہی تھے کہ اچانک فائرنگ شروع ہو گئی۔ گارڈز نے اسے نیچے گرا کر اس کے اردگرد گھیرا ڈال لیا۔
"سر کو گولی لگ گئی ہے! ہٹ جاؤ، ہٹ جاؤ! انہیں ہاسپٹل لے کر جانا ہو گا۔” گارڈز سٹیج پر سے لوگوں کو ہٹانے لگے مگر افراتفری پھیلی ہوئی تھی کیونکہ شوٹر کو کچھ نوجوانوں نے پکڑ لیا تھا اور وہ مزاحمت کر رہا تھا جس کی وجہ سے اس کی گن سے مسلسل گولیاں مختلف سمت میں چل رہی تھیں، (ویسے فائرنگ کرنے والا تنہا نہیں تھا، ایک بڑی گن سے بھی برسٹ مارے گئے) سٹیج پر موجود چند اور افراد کو بھی گولیاں لگیں۔ ہجوم میں جو لوگ شوٹر کو دبوچنے میں مصروف تھے ان میں سے ایک کے پیٹ میں گولی لگی اور وہ موقعے پر ہی انتقال کر گیا۔ لوگ تتر بتر ہو گئے۔
اس شخص کا انتقال ہوا، اس کے تین چھوٹے چھوٹے بیٹے باپ کی لاش سے لپٹے اسے اٹھانے کی کوشش میں مصروف تھے: ” بابا!بابا! اٹھیں!”
وہ معصوم نہیں جانتے تھے کہ ان کے والد وہاں جا چکے ہیں جہاں سے کوئی واپس نہیں آتا۔
سیاسی لیڈر اور ان کے زخمی ساتھیوں کو ہاسپٹل پہنچا دیا گیا تھا؛ بعض کو گولیاں تو لگی تھیں مگر کوئی بھی شدید زخمی نہ تھا، ملک بھر میں پارٹی کے کارکنان نے مظاہرے شروع کر دیئے۔ توڑ پھوڑ شروع ہو چکی تھی۔ دکانیں، گاڑیاں، رکشے، بسز جو سامنے آیا لوگوں نے بنا سوچے سمجھے ان پر پتھراؤ کیا، ڈنڈے برسائے اور ذاتی املاک کو نقصان پہنچایا۔
سیاسی لیڈر کی سرجری کی گئی، گولی نکال دی گئی تھی اور اس کی طبیعت بہتر تھی۔ اس نے ہاسپٹل کے بیڈ سے ہی عوام سے خطاب کیا جسے تمام ٹی وی چینلز پر نشر کیا گیا:
"میرے پیارے ہم وطنو! میں بہتر محسوس کر رہا ہوں۔ آپ کی دعاؤں اور محبتوں کا شکریہ! میری آپ سے گزارش ہے کہ پرامن رہیے۔ احتجاج آپ کا حق ہے ضرور کیجئے مگر ذاتی املاک کو نقصان نہ پہنچائیں۔ سرکاری عمارات پر حملے نہ کریں۔یہ ہمارا ملک ہے یہ ہمارے ادارے ہیں ان کا نقصان ہمارا نقصان ہے۔ میں دیکھ رہا ہوں کہ کچھ لوگوں نے گاڑیوں رکشوں پر ڈنڈے برسا کر انہیں تباہ کر دیا ہے۔ خدارا! ایسا مت کیجئے۔ جانے کتنی مشکلوں سے ان بیچاروں نے قسطوں پر یہ گاڑیاں لی ہوں گی جو ان کے روزگار کا وسیلہ تھیں۔ آپ نے ایسا کر کے ان کے مسائل میں اضافہ کر دیا ہے۔ ایسا مت کیجئے۔شٹرڈاؤن ہڑتال کرنے سے کاروبار کا نقصان ہو گا ملکی معیشت کو نقصان ہو گا۔ سڑکوں پر نکلنے سے عوام کو تکلیف ہو گی۔ سڑکیں بند ہو جائیں گی تو دفاتر اور سکول کالج آنے جانے والوں کو مسئلہ ہو گا۔ کوئی بیمار ہاسپٹل نہیں پہنچ پائے گا۔ میں اپنی عوام کی خاطر یہ جنگ لڑ رہا ہوں، اگر ان کو ہی تکلیف ہو تو میری اس جدوجہد کا کیا فائدہ۔ پلیز ایسا کچھ مت کیجئے جس سے دوسروں کو نقصان پہنچے یا تکلیف ہو! مجھے امید ہے آپ اپنے لیڈر کی درخواست پر لبیک کہیں گے۔
حکومت کے لیے میرا ایک ہی پیغام ہے۔ بہادر حریف کی طرح سامنے آ کر مقابلہ کیجئے یہ کیا کہ بزدلوں کی طرح قاتلانہ حملے کروا رہے ہیں۔ اس سے پہلے آپ نے ارشد شریف جیسے بہادر صحافی کی زبان بندی کے لیے اسے قتل کروا دیا اب مجھ پر حملہ کروایا گیا۔ یہ کیا طریقہ ہے جس کی زبان بند نہ کروا سکیں اسے مروا دیں۔ یہ سیاست نہیں یہ تو ذاتی دشمنی ہے۔ اور سیاست میں دشمنی کی کوئی گنجائش نہیں۔
میری آپ سے کوئی ذاتی دشمنی نہیں ہے۔ میں صرف یہ چاہتا ہوں کہ ملک کی ترقی و استحکام کے لیے کام کیا جائے۔کرپشن کا خاتمہ کیا جائے۔ آپ برسر اقتدار ہوں یا میں یا کوئی اور اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ بس ملک کے ساتھ مخلص ہو کر کام کریں۔ امن و محبت کے ساتھ رہیں یہی میری خواہش ہے اور اسی کے لیے میں کوشاں ہوں۔ اللہ تعالٰی سب کا حامی و ناصر ہو۔ پاکستان زندہ باد پاکستان پائندہ باد۔”
ٹی وہ چینلز پر یہ رپورٹ چلتے ساتھ ملک بھر میں ہڑتال ختم کر دی گئی۔ لوگوں نے مارچ جاری رکھا، احتجاج کرتے رہے مگر کسی کی املاک کو نقصان پہنچایا گیا نہ ہی سڑکوں کو بلاک کیا گیا۔
وزیراعظم نے قوم سے خطاب کیا اور کہا: "ہم اپوزیشن لیڈر پر قاتلانہ حملے کی سخت مذمت کرتے ہیں۔ اس کام میں حکومت کا کوئی ہاتھ نہیں ہے۔ یقیناً بیرونی طاقتیں ہمارے خلاف سازش کر رہی ہیں۔ یہ کام ان لوگوں کا ہے جو پاکستان کو غیرمستحکم اور انتشار کا شکار کرنا چاہتے ہیں۔ ہم اس واقعہ کی مکمل تحقیقات کریں گے اور مجرموں کو جلد گرفتار کر کے قرار واقعی سزا دی جائے گی۔ میں شام کو اپوزیشن لیڈر کی عیادت کے لیے ہاسپٹل جاؤں گا۔ عوام سے میری اپیل ہے کہ جب تک اس واقعہ کی تحقیقاتی رپورٹ سامنے نہ آ جائے، ذرا تحمل کا مظاہرہ کریں۔”
نوٹ: کاش ایسا کچھ حقیقت میں بھی ہوتا!