کرائے کے گھر میں ساتھ کون ہو گا!
نوشین فاطمہ
مجھے کرائے کے گھر کی ضرورت آخر کیوں ہوئی، اس پر شاعر کی حیثیت میں تو میں پورا ایک دیوان لکھ سکتی ہوں لیکن وہ پھر سہی۔
ہر انسان کی طرح میری بھی خواہش تھی کہ اپنے خاندان والوں (زیادہ تر خواتین) کے لئے ایک اچھا گھر لوں۔ اب چونکہ خریدنے کی استطاعت تو تھی نہیں تو سوچا کرائے پر ہی لے لیتی ہوں۔
پدر شاہی کا کٹہرا
میں سمجھی کرائے کا گھر لینا آسان کام ہو گا۔ عادت کے مطابق فیس بک پر ‘ایک عدد کرائے کے گھر کی ضرورت ہے’ کی پوسٹ ڈال دی۔
بس پھر کیا تھا کہ دھڑا دھڑ پیغامات آنا شروع ہو گئے۔ یوں لگا جیسے پورا پشاور ہی خالی گھروں کی آماجگاہ ہے اور بس میرے شفٹ ہونے کے منتظر۔ تین چار دن تک تو کام کیا کرتی ہوں، کرائے اور کمروں کی تعداد کے گھن چکر نے چکرا کر رکھ دیا۔
پھر شروع ہوا اصل معاملہ۔ ۔۔اور وہ تھا کہ میرے ساتھ ہو گا کون!
اب لفظ گا پر زیادہ زور تھا۔ خواتین کے اکیلے ہونے پر بھی خواہ مخواہ کا اعتراض۔
مجھے تو یوں لگا جیسے کوئی جرم ہو گیا ہو اور میں کسی عدالتی کارروائی کا حصہ بنی پدر شاہی کے کٹہرے میں کھڑی ہلکان ہوئی جا رہی ہوں۔
جھوٹ قبول ہے مگر عورت کی ذاتی شناخت نہیں
کچھ لوگوں نے ذاتی نوعیت میں کرائے کے گھروں کے بارے میں بتایا۔ سوچا دیکھنے میں حرج نہیں پسند آیا تو کرایے پر لے لوں گی۔ والدہ کو ساتھ لے کر ایک جگہ پہنچی۔
وہاں ایک سفید بالوں والے بابا جی موجود تھے۔ ہمیں دیکھتے ہی بانچھیں جیسے چر گئیں۔ اب ان کی چری ہوئی بانچھوں سے جو باتیں نکلیں اس کا لب لباب یہ تھا کہ کرائے کے لئے خالی مکان ان کے بھائی صاحب کا ہے۔ اب اگر گھر چاہیے تو بھائی صاحب کی بیگم کو جھوٹ بتاؤں کہ میں ان کے کسی کزن کی دوست ہوں۔
وہ کیوں بھئی؟ میری اپنی پہچان کیوں کافی نہیں؟ پھر جھوٹ کیوں بولوں؟ مجھے اپنے سے دگنی عمر کے کسی خوامخواہ کے کزن کے پیچھے چھپنے کی کیا ضرورت ہے؟
یہ سب بہت ہی برا لگا۔
قصہ مختصر یوں کہ جیسے انہوں نے میری ذاتی شناخت کو رد کرنے کی بھونڈی کوشش کی، ویسے ہی میں نے ان کا واہیات گھر رد کر دیا۔
دوسرا گھر دیکھنے کی تگ و دو سے والدہ سمیت گزر رہی تھی کہ موبائل پر چری بانچھوں والے بڑے میاں کے واہیات ستائشی پیغامات آنا شروع ہو گئے۔
پھر کہتے ہیں ناٹ آل مین۔ آخر کہاں ہیں یہ ناٹ آل مین جنہیں کرائے کا گھر دکھانے اور خواتین کو غیرضروری بیہودہ پیغامات بھیجنے کا فرق معلوم ہو اور وہ اس پر عمل بھی کریں۔
امی بھائیوں کے ساتھ کیوں نہیں رہتیں؟
دوسرا گھر دیکھنے پہنچی تو ملاحظہ ہو پدر شاہی کٹہرے کے بعد پدر شاہی تھانہ۔
یوں لگا جن صاحب کا گھر ہے وہ کوئی تھانے دار اور ان کا گھر تفتیشی مرکز۔ عورت مخالف سوالات کا سلسلہ شروع ہوا اور گدھے کی آنت کی طرح کھنچتا ہی چلا گیا۔ کچھ سوال یہ تھے:
آپ کی امی آپ کے بھائیوں کے ساتھ کیوں نہیں رہتی؟ (کیوں، صرف ان کی ماں ہے میری نہیں)
آپ لوگوں کے ساتھ بالکل بھی کوئی مرد نہیں رہے گا؟ (کیوں، یہ کیا اسلامی نظریاتی کونسل کا شادی کا قانون ہے جس میں ایک مرد کا ہونا لازم ہے)
اس پر تو جیسے انہیں عورتوں کے لئے امڈ آنے والی مفت کی ہمدری کا بخار سا چڑھ گیا ہو۔ ٹھنڈی آہ بھر کر کہنے لگے عورتٰیں یہ سب کچھ اکیلے تو نہیں کر سکتیں۔ آپ پر تو قسمت کا بوجھ گر گیا ہے۔
جی تو چاہا کہ قسمت کے خیالی بوجھ کا تھپڑ بنا کر ان ہی صاحب کے چہرے پر رسید کر دوں مگر ہائے رے ہمارا عدم تشدد کا فلسفہ۔
کانوں کو ہاتھ لگایا اور والدہ کو لے کر وہاں سے نکل لئے۔ ویسے بھی زیادہ ٹھنڈ میں بندہ بیمار پڑ جاتا ہے اور ان صاحب کی آہیں تو تھیں بھی یخ بستہ۔
عورت ہی عورت کے کام آتی ہے
اگر آپ سمجھ رہے ہیں کہ مایوس ہو کر میں نے گھر ڈھونڈنا ترک کر دیا ہو تو ایسا نہیں ہے۔ میری ہمت اور طاقت پدر شاہی اور عورت مخالف رویوں سے کہیں زیادہ زور آور ہے۔ مجھے کرائے کا بہت ہی مناسب اور محفوظ گھر ایک عورت کی بدولت ملا۔
دیکھا عورت ہی عورت کے کام آئی۔ میں نے بھی ان کی کئی مرتبہ مدد کی تھی۔ اب نہ تو انہوں نے اور نہ ہی مالک مکان نے کوئی تفشیشی کردار ادا کیا۔
بس میرا پیغام یہ ہے کہ خواتین ایک دوسرے کی مدد کرتی رہیں اور اس کے بارے میں لوگوں کو بھی بتائیں۔
کیا آپ کے پاس ایسی کوئی داستان ہے جس میں عورت کی ایک دن کی روداد مردوں کی مہینوں پر محیط کوششوں کی روداد کے مقابلے کی ہو؟
نوشین فاطمہ ایک سماجی کارکن اور بلاگر ہیں۔