بلاگزلائف سٹائل

8 اکتوبر 2005 کی کہانی ایک کم سن طالبہ کی زبانی

سنبل ذوالفقار علی

پاکستان کی تاریخ کا سب سے ہولناک دن؛ ہفتہ کے روز آنے والے قیامت خیز زلزلے کی تباہ کاریاں اور لرزہ خیز یادیں 17 سال بعد بھی تازہ ہیں۔ وہ اندوہناک مناظر؛ ہر طرف چیخ و پکار، نفسانفسی، آج بھی میرے دل و دماغ میں اُسی طرح محفوظ ہیں گویا سترہ سال نہیں کچھ پل ہی بیتے ہوں۔

یہ صبح 8 اکتوبر 2005 کی وہ دردناک صبح تھی جو طلوع بھی معمول کے مطابق ہوئی تھی، سورج کی کرنوں نے اندھیروں کے طلسم کو توڑ کر اجالا کر دیا تھا، اس وقت میں اپنے سکول میں تھی۔ اُن وقتوں میں پہلی کلاس عموماً اسلامیات کی رکھی جاتی تھی۔ اعتقاد یہ تھا کہ مقدس کلام سے کالی پرچھائیاں زائل ہوں اور دن کا آغاز خیر و عافیت سے ہو۔ قاری صاحب ہمیں اسلامیات پڑھاتے تھے۔

جوں ہی گھڑی کی سوئیاں آٹھ بج کر باؤن منٹ 8:52 پر ٹکیں اچانک ایک ہولناک آواز آئی یوں لگا جیسے دھرتی اپنا سینہ پھاڑ کر دھاڑ رہی ہو۔ قدیم روایتوں کے مطابق زمین کو اپنے سینگوں پر اٹھانے والا سانڈ چنگھاڑا ہو۔ ہمارے دل دہل گئے۔ یہ عام آواز نہیں تھی۔ بچوں کی دھڑکنیں ان کے سینوں پر ہتھوڑے برسانے لگیں۔

دو چار لمحے ایسے ہی گزرے ہوں گے کہ زمین نے زبردست انگڑائی لی، در و دیوار بجنے لگے۔ چھت پر ٹنگا پنکھا جھولے کی مانند ہوا میں تیرنے لگا۔ سب کچھ اتھل پتھل ہو رہا تھا۔ ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے کلاس روم کے نیچے چھپا ہوا کوئی اژدھا تیزی سے کروٹیں بدل رہا ہے۔ یہاں پر ہماری بصارت و شعور دونوں کا پردہ گر گیا، ہر طرف بچوں کی چیخ و پکار نے قیامتِ صغریٰ برپا کر دیا تھا۔ دھُند چَھٹی تو خود کو سکول کے سامنے واقع خالی کھیت میں پایا۔ کسی کو معلوم نہ تھا کہ نوکیلے چیزوں سے کیسے گزر ہوا۔ ہمارے سکول کا آدھا حصّہ زمین بوس ہو گیا تھا، ہر طرف وحشت کا عالم تھا۔
اساتذہ کرام اور اِردگرد کے رہائشی لوگ بہ آوازِ بلند کلمہ طیبہ اور قرآنی آیات کا ورد جاری کئے ہوئے تھے۔ بڑوں کی دیکھا دیکھی بچوں نے بھی رونے کے انداز میں لا اِلٰہ الااللہ پڑھنا شروع کر دیا تھا۔

ہمارے جسموں پر کپکپی طاری تھی؛ حواس باختگی کا عجیب عالم تھا۔ ہمارے سکول کے چوکیدار نجانے کہاں سے پانی کا جگ اٹھا لایا تھا۔ بچوں کو پانی پِلا پِلا کر دلاسے دے رہا تھا کہ زمین نے ایک بار پھر زبردست بل کھانے شروع کر دیئے۔ زلزلے کے خوفناک جھٹکے کی وجہ سے یہ دو منزلہ عمارت ایسے گرِی کہ اس کی نچلی منزل زمین میں دھنس گئی۔ تقریباً نصف حصّہ ہمارے سامنے زمینی سطح کے برابر آ گیا اور باقی حصّہ سالم کھڑا رہا۔ عمارت گرنے کی آواز اور لوگوں کے چیخنے کی آوازیں آج بھی میرے ذہن پر حاوی ہو جاتے ہیں۔ درخت اپنی جگہ قائم تھے لیکن لڑکھڑا کر گر رہے تھے۔ ایسے میں عمارت کی مشرقی جانب سے آہ وبکا کی آوازیں آنی لگیں۔ گریہ و زاری اس قدر شدید تھی ہر سمت تھرتھراہٹ تھی۔ اُس سمے ہمارے پرنسپل کا توجہ اندر ملبے میں دبے ہمارے داخلے کرنے والے کلرک کی جانب گئی جو ہم میں موجود نہ تھا۔ ہمارے استاد (قاری صاحب)، پرنسپل اور مقامی لو گوں نے بڑھ کر ملبہ ہٹا کر دیکھا تو اُس معصوم کی زندگی باقی نہ تھی۔ دیواریں اور چھت مکمل طور پر زمین میں اُتر گئے تھے۔ اینٹوں کا ڈھیر اُٹھاتے اُٹھاتے بہت سے بچوں کی لاشیں دیکھیں جن کے سینوں پر اینٹیں آن گھری تھیں اور بہت سے بچوں کی زندگیاں اس ہولناک زلزلے کی ہو گئی تھیں۔

نہ تو نفسانفسی کا عالم تھا اور نہ ہی ہمدردی کا، حواس باختگی کی فضا تھی اور اوسان جاتے رہے تھے۔ میں اُسی کھلے میدان میں حیران و پریشان کھڑی تھی اور دماغ نے کام کرنا چھوڑ دیا تھا اچانک میر ی نظر اپنے بابا جان پر پڑی اور ایسے محسوس ہوا کہ جیسے فضاؤں میں اڑتے ہوئے کسی شخص کے پاؤں زمین کو جا لگے ہوں۔ میں اپنے والد سے لپٹ کر بے ساختہ رونے لگی۔ اُن کو میری فکر تھی اور مجھے اپنے گھر والوں کی۔ لہو آشنا رشتے واقعتاً بے نظیر ہوتے ہیں اور مجھے بتایا گیا کہ گھر میں سب ٹھیک ہیں۔

میں اپنے والد صاحب کے ہمراہ اپنے آبائی گاؤں کی جانب روانہ ہوئی۔ راستے میں ہو کا عالم تھا۔ مٹی کے بنے سب کے سب گھر گرِ چکےتھے۔ بے بسی کی وہ حالت زار آ ج بھی میرے ذہن میں نقش ہے۔ جو اپنے پیاروں کو مٹی کے ڈھیروں سے نکالنے کی ناکام کوشش کر رہے تھے۔ اپنے گھر پہنچنے پر مجھے پہلی مرتبہ موت کی حقیقت اور خوف کا احساس ہوا۔ خیر اِس میں کوئی نئی بات نہ تھی، ہر شخص کی یہی کہانی تھی مگر ایک واقعہ میری یاداشت میں ہمیشہ کیلئے نقوش چھوڑ گیا۔

یہ زلزلے کا جھٹکا ہے یا ربّ نے کہا ہے
اس شہر میں جو کچھ ہوا دیکھ رہا ہوں

زلزلے کے اگلے روز

اگلی صبح بھرپور اور بکھری ہوئی تھی مگر اس کو دیکھنے والوں کی اکثریت چل بسی تھی۔ اس کے بعد کا کچھ عرصہ بڑی بدحالی میں گزرا۔ رمضان المبارک کا مہینہ تھا؛ لوگ بھوکوں سحری کرتے اور فاقوں افطار! میرے لئے بڑی بے خیالی کے دن تھے۔ موت کے تلخ ترین تجربے کے اتنے قریب سے مشاہدے سے مجھے لگتا تھا کہ مجھے دوسری زندگی مل گئی ہے۔ سکو ل کی دائمی بربادی کا سوچ کر مجھ پر شدید خوف طاری ہو جاتا، دل میں ایک یہی بات تھی باغ اُس وقت باغ کہلاتا ہے جب اس میں پھولوں کی مہک ہو لیکن ہمارا باغ اُجڑ گیا تھا مگر ہم نے اسے سنوارنا تھا کیونکہ کیمپوں میں رہنے والوں کی نہ کوئی تاریخ ہونی ہے نہ ان کی نسل کو یقین ہوتا ہے کہ ہم حوصلے سے کام لیں گے محنت کریں گے اور ایک بار پھِر سے اپنے پاؤں پر کھڑے ہوں گے۔

زلزلہ آیا اور آ کر ہو گیا رخصت مگر
وقت کے رخ پر تباہی کی عبارت لکھ گیا

اموات

8 اکتوبر 2005 میں پاکستان میں آنے والے اس قیامت خیز زلزلے میں 86 ہزار افراد لقمہ اجل بن گئے اور 70 ہزار سے زائد افراد لہولہان ہو گئے۔ 3.3 ملین لو گ بے گھر ہوئے۔ زلزلے میں 19 ہزار بچے فوت ہوئے جن کی اموات زیادہ تر سکولوں کی عمارتیں گِرنے سے ہوئیں۔ تقریباً اڑھائی لاکھ کے قریب مویشی بھی ہلاک ہوئے۔ غرض یہ کہ زلزلہ ان علاقوں کا انفراسٹرکچر مکمل طور پر تباہ کر گیا۔

زلزلے کی شدت

رپورٹ کے مطابق ریکٹر اسکیل پر زلزلہ کی شدت 7 اعشاریہ 6 ریکارڈ کی گئی، جبکہ اس کا مرکز زیرزمین 15 کلومیٹر کی گہرائی میں تھا۔ زلزلے کے بعد کئی روز تک آفٹر شاکس کا سلسلہ بھی جاری رہا۔ پاکستان کی تاریخ کا بدترین اور دنیا کا چوتھا بڑا زلزلہ تھا۔

احتیاطی تدابیر

زلزلے کی صورت میں فوری طور پر عمارت سے باہر کھلی جگہ پر چلے جانا چاہئے اگر باہر نکلنا ممکن نہ ہو تو میز یا اسی توعیت کی کسی دوسر ی چیز کے نیچے پناہ لینی چاہیے تاکہ آپ خود کو چھت یا دیواروں سے ممکنہ طور پر گرنے والے ملبے سے بچا سکیں۔ زلزلے کے دوران کھڑکیوں، بھاری فرنیچر اور بڑے آ لات وغیرہ سے دور رہیں۔

وہ اپنے ہونے کا احساس یوں بھی دلا دیتا ہے
بس تھوڑی سی زمین ہلا دیتا ہے

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button