سیلاب: بچ جانے والوں کو بچا لیں، بھوک اور بیماری سے
نازیہ سلارزئی
سیلاب تو گرز گیا مگر اپنے پیچھے نئے بحرانوں کے لئے راستہ بنا گیا جیسے کہ صحت کا بحران۔
پاکستان میں شدید بارشوں کے بعد سیلاب کی وجہ سے اس وقت ایک تہائی ملک ڈوب چکا ہے۔ بارشیں رک گئیں اور سیلابی ریلے بھی کم ہو گئے مگر اس کے بعد ایک نئی آفت سامنے کھڑی ہے؛ جی ہاں! آپ صحیح سمجھے۔ وہ آفت آلودہ سیلابی پانی ہے۔
یہ آفت چونکہ ہر جگہ موجود ہے تو اس نے مزید کئی آفتوں کو جنم دے دیا ہے۔ متاثرہ لوگ ابھی پچھلی آفتوں سے ہی نبرد آزما نہیں ہو پائے کہ آلودہ پانی سے ہونے والی متعدی بیماریوں نے ان پر حملہ کر دیا ہے۔
سیلاب سے متاثرہ زیادہ تر علاقوں میں پانی میں نہ صرف انسانی فضلہ بلکہ مردہ جانوروں کی باقیات بھی شامل ہیں جس کی وجہ سے ملک بھر میں مختلف بیماریاں پھیل رہی ہیں اور مزید پھیلنے کا امکان ہے جس سے بچے بری طرح سے متاثر ہو رہے ہیں۔
سیلاب نے بچوں، بڑوں، نوجوانوں اور بوڑھوں یعنی سب کو ہی متاثر کیا ہے۔
کوئی آنکھوں کی بیماری میں مبتلا تو کسی کو بخار نے گھیرا ہے، کوئی پیٹ درد سے کراہ رہا ہے تو کئی معدے کی تکلیف سے تڑپ رہا ہے تو کسی کو جلدی بیماری چین سے بیٹھنے نہیں دے رہی۔
متعدی بیماریاں ہوتی کیا ہیں؟
سیلاب کے بعد زیادہ تر بیماریاں گندے پانی کے کھڑے رہنے سے ہوتی ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر متعدی بیماریاں ہوتی ہیں جو جانداروں سے ایک دوسرے میں پھیلتی ہیں۔ یہ بیماری ایک جاندار سے دوسرے جاندارکو چھونے، قریب آنے یا ہاتھ لگانے سے ہو سکتی ہے۔ جیسے مختلف وائرس، فنگس یا بیکٹریا وغیرہ۔
ڈائیریا، ڈینگی، ملیریا، پیاٹائیٹس اے اور ای، اور جلدی بیماریاں
سیلابی پانی کے آلودہ ہونے کی بڑی وجہ اس میں انسان اور جانور، دونوں کے فضلے کا شامل ہونا ہے۔ سیلابی علاقوں میں متاثرہ لوگ اس وقت جس بیماری کا شکار ہیں وہ گیسٹرو انٹرائیٹس ہے۔ آلودہ پانی میں فضلہ شامل ہوتا ہے۔ بدقسمتی سے متاثرہ لوگ اس وقت وہی پانی استعمال کرنے پر مجبور ہیں جس کی وجہ سے پانی منہ کے زریعے پیٹ میں داخل ہو کر ڈائیریا (اسہال) کا سبب بن رہا ہے۔ اس آلودہ پانی میں وائرل پیتھوجن بھی ہوتے ہیں جن سے مزید انفیکشن بڑھتا ہے۔
اب اگر متاثرہ خاندان کے ایک شخص کو ڈائیریا ہوا تو چونکہ یہ لگنے والی بیماری ہے تو پھر گھر کے باقی لوگ بھی بیمار ہو جائیں گے۔
سیلاب متاثرہ علاقوں میں لوگ کھڑے پانی کے پاس کھلے آسمان کے نیچے رہ رہے ہیں۔ ڈینگی کی بیماری گو کہ ہوتی تو مچھروں سے ہے مگر جہاں پانی کھڑا ہو تو وہاں مچھروں اور مکھیوں کی بہتات ہونا تو لازمی ٹھہرا۔
بیماریاں وارد مگر دوا ندارد
میں مارکیٹ سے پیناڈول کی گولیاں خریدنے گئی۔ پتہ چلا شارٹ ہیں نہیں مل رہی۔ ایسا کیوں بھلا؟ تو فارمیسسٹ نے بتا یا کہ سپلائی کم ہورہی ہے کیونکہ ایک وجہ ڈینگی بخار کا سیلاب والی علاقوں میں پھیلائو ہے جس کی وجہ سے پیناڈول کی طلب بڑھ گئی ہے۔ کیا سب سیلاب متاثرہ لوگوں کو پیناڈول ہی دی جارہی ہے؟
اس کے ساتھ ہی ٹائیفائیڈ بخار بھی پھیل ریا ہے۔
ہیپاٹائیٹس اے اور ای کے نشانے پر زیادہ تر حاملہ خواتین اور بچے ہیں کیونکہ دونوں کا مدافعتی نظام کمزور ہوتا ہے۔
جو بیماریاں حاملہ خواتیں اوربچوں کو متاثر کر رہی ہے ان میں ہیضہ، ڈائیریا، پیچس، ٹائیفائڈ، ڈینگی، خارش، جلد کی بیماریاں اور ملیریا شامل ہے۔ جبکہ غذائی قلت ایک اور مسئلہ ہے جس سے سب ہی سیلاب زدہ لوگ متاثر ہو رہے ہیں۔
بین الاقوامی امدادی ادارے گلا پھاڑے چیخ رہے ہیں کہ سیلاب کی وجہ سے 30 لاکھ سے زائد بچوں کی زندگیاں خطرے میں ہیں۔ ان میں سب سے زیادہ تعداد آفت زدہ سندھ میں ہے۔
کریں تو کیا کریں؟
سب سے پہلے تو وہ عناصر جو اس صورتحال کو ٹھیک کر سکتے ہیں وہ اعلان اور وعدے کم اور عمل زیادہ کریں۔
اب عمل کے دائرے میں کیا کچھ ہو سکتا ہے، جاننے کے لئے میں ے کچھ تدبیریں لکھیں ہیں:
زیادہ سے زیادہ پینے کا صاف پانی اور خوارک
مچھر مار دوائیوں کا متاثرہ علاقوں میں مسلسل اسپرے
خیموں کی فراہمی
زیادہ سے زیادہ میڈیکل کیمپس
طبی کیمپوں میں بھیڑ نہ لگائی جائے، ایسا زیادہ طبی کیمپوں کے قیام سے ممکن ہے
لیڈی ڈاکٹروں کی فراہمی، ان کی خواتین تک رسائی اور ان کی حفاظت کو یقینی بنانا
میڈیکل کیمپس میں مکمل طبی سہولیات اور دوائیوں اور سانپ کے کاٹنے کی دوائیوں کی فراہمی یقینی
پانی میں گھرے علاقوں میں موبائل طبی کیمپس کا قیام
اگر یہ سب کچھ نہ ہوا تو جو سیلاب سے بچ گئے وہ کہیں بھوک اور بیماری سے نہ مر جائیں۔ خدارا، بچا لیں انہیں! بچ جانے والے سیلاب متاثرہ ہم وطنوں کے لئے آپ کے ذہن میں اور کیا تجویز آ رہی ہے ؟
نازیہ سلارزئی اکنامکس گریجویٹ اور بلاگر ہیں۔
ٹویٹر ہینڈل: NaziaSalarzai@
(نوٹ: سیلاب کی صورتحال پر ٹی این این کی خصوصی بلاگ سیریز)