وہ دن جب میری سوچ سرکاری ہسپتال کے بارے میں بالکل بدل گئی
انیلا نایاب
بخار زیادہ دن تک رہے تو جلدی ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہئے کیونکہ بخار بذات خود کوئی بیماری نہیں ہے، یہ کسی وجہ سے ہوتی ہے۔
مسلسل بخار کی شکایت ہونے کی وجہ سے مجھے کچھ دن پہلے صوبے کے سب سے بڑے ہسپتال لیڈی ریڈنگ کے میڈیکل بی وارڈ میں داخل ہونا پڑا جہاں 3 دنوں میں کافی تجربات ہوئے جن پے کبھی غور ہی نہیں کیا تھا۔
اکثر ہم لوگوں کی سنی سنائی باتوں پر آنکھیں بند کر کے یقین کر لیتے ہیں، ایسا سنا تھا کہ سرکاری ہسپتالوں کے حالات بے حد ناقص ہیں؛ نہ تو ڈاکٹرز مریضوں کا ٹھیک طرح سے علاج کرتے ہیں نہ وہاں کے عملے کا رویہ ٹھیک، غرض کچھ بھی صحیح نہیں ہوتاا اس لیے ہمارا رجحان پرائیویٹ کلینک کی طرف زیادہ ہوتا ہے لیکن کچھ دن پہلے جب سرکاری ہسپتال میں مجھے داخل کرایا گیا تو اسی دن میری سوچ سرکاری ہسپتال کے بارے میں بالکل بدل گئی۔ جب ڈاکٹر نے چیک اپ کیا اور داخل کرایا تو کافی ڈری ہوئی تھی کہ اب کیا ہو گا لیکن جب وارڈ میں داخل ہوئی اور وہاں کی حالت دیکھی تو حیران رہ گئی؛ بے حد صاف وارڈ تھا، بیڈ ترتیب سے اور ہر بیڈ پر صاف بیڈ شیٹ جس کو صبح شام تبدیل کیا جاتا تھا۔
میں اپنے بیڈ پر بیٹھی تو معائنہ کرنے نرس آئی۔ میں نے نرسوں کے بارے میں کافی سنا تھا کہ بدتمیز ہوتی ہیں لیکن ایسا کچھ نہیں تھا۔ نرس نے اچھے انداز سے پوچھا اور میرا چیک اپ کیا۔ روزانہ صبح بیڈ شیٹ تبدیل کرنے کے ساتھ ساتھ پورے وارڈ کی فنائل سے صفائی ہوتی، پھر ہر مریض کے پاس نرس جاتی، پہلے بی پی شوگر چیک کرتی پھر مریض کو اس کی دوائی دیتی جو ان کی فائل شیٹ میں درج ہوتا تھا۔
پورے 10 بجے صبح ڈاکٹر راؤنڈ لگاتے اور مختلف ٹیسٹ لکھ دیتے جس کے بعد نرس آ کر بیڈ پر ہی خون لے کر ٹیسٹ کے لیے بجھواتی تھی۔
سب سے اچھی بات یہ تھی کہ وارڈ کی خالہ اور ایک کلاس فور روزانہ صبح شام فارمیسی جاتے تھے اور وارڈ میں داخل تمام مریضوں کے لئے دوائیاں لاتے تھے۔ پھر ہر مریض کے ساتھ جو تیماردار ہوتا ان کو بلایا جاتا تھا جو مریض کی فائل کے ساتھ نرس کاونٹر جاتا اور مریض کی دوائیاں ان کو حوالہ کی جاتی تھیں۔
وارڈ میں سب بخار کے مریض تھے جن کے ٹیسٹ آنے کے بعد اور ان کی بیماری کی تشخیص ہونے کے بعد ان کو معتلقہ بیماری والے وارڈ میں شفٹ کیا جاتا تھا۔ کسی کو خون کی کمی، کسی کو معدے، ٹی بی یا جسم کے کسی دوسرے حصے میں اندورنی زخم کی وجہ سے بخار کی شکایت ہوتی تھی؛ زیادہ آگاہی نا ہونے کی وجہ سے لوگ خود ہی گھر میں اپنی مرضی سے کوئی بھی ٹمپریچر کی دوائی استعمال کرتے ہیں جو خطرناک ہے۔
ڈاکٹر جب بھی پورے وارڈ کا معائنہ کرتے تو سب کو ضرور بتاتے تھے کہ جب بھی بخار طویل ہو جائے تو وہ مختلف خطرناک بیماریوں کا باعث بنتا ہے جن میں ایک بلڈ کینسر بھی شامل ہے، بخار خود کوئی مرض نہیں ہے یہ کسی نا کسی وجہ سے ہوتا ہے اس لئے بروقت تشخیص سے علاج آسان ہوتا ہے ورنہ مریض کسی بھی خطرناک بیماری میں مبتلا ہو سکتا ہے۔ جب ٹیسٹ میں پتہ چلتا ہے کہ کیا بیماری ہے تو وہی علاج شروع کیا جاتا ہے جس کی ضرورت ہوتی ہے لیکن جب لوگ مرض کو جانے بغیر خود ہی کوئی بھی گولی یا دوائی لیتے ہیں تو ساری زندگی بخار ٹھیک نہیں ہوتا اور جیسے ہی دوائی کا اثر ختم ہوتا ہے بخار دوبارہ شروع ہو جاتا ہے۔
اس کے علاوہ روزنہ دوائی دینے کے ساتھ مختلف ٹیسٹ بھی کئے جاتے تھے اور یہ سب صحت کارڈ پر ہوتا تھا؛ غریب لوگوں کے لئے جو کسی نعمت سے کم نہیں ہے کیونکہ پہلے لوگ ہسپتال کے خرچوں کی وجہ سے علاج نہیں کرتے تھے لیکن اب نا صرف ہر معمولی علاج بلکہ بڑے بڑے آپریشن بھی کرتے ہیں اور تمام میڈیکل اخراجات صحت کارڈ سے پورے ہو جاتے ہیں۔
مجھے بھی جب ہسپتال سے فارغ کیا گیا تو تمام اخراجات کی کٹنگ کارڈ سے کی گئی۔