بلاگزلائف سٹائل

سیلاب کے بعد نئی آفتوں کا سیلاب بچے بہا لے جا رہا ہے

مہرین خالد

 میں نے کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ ماحولیاتی تبدیلی اتنی سفاک ہو گی کہ دنیا بھر میں ایک ارب سے زیادہ بچوں کو براہ راست اپنے نشانے پر رکھ لے گی۔ یہ خوفناک انکشاف یونیسیف نے تقریباً ایک سال پہلے کیا تھا۔  ان کی رپورٹ میں یہ بھی لکھا تھا کہ قدرتی آفتوں سے اب شاید ہی کوئی بچہ محفوظ ہو۔

پاکستان میں آنے والے سیلاب نے تو کچھ ایسی ہی دہلا دینے والی منظر کشی کی ہے۔

یونیسیف کی ہی تازہ رپورٹ پڑھی تو پتہ چلا کہ سیلاب سے ایک کروڑ 60 لاکھ بچے شدید متاثر ہوئے، جبکہ اپنے ساتھ 528 سے زیادہ ننھی کلیاں بھی بہا لے گیا ہے۔

آخر ایسے کون سے خطرات ہیں جو بچ جانے والے ننھے پھولوں کو لاحق ہیں؟

غذائی قلت

یہ ایک ایسا خطرہ ہے جو پسماندہ اور ترقی پذیر علاقوں میں عام حالات میں بھی میں لاحق ہوتا ہے۔ مگر جو کچھ اس سیلاب کے بعد بچوں کے ساتھ ہو رہا ہے اس سے تو جیسے رونگٹے ہی کھڑے ہو جائیں۔

کیا غذائی قلت ایسا مسئلہ ہے کہ جس پر قابو پانا جوئے شیر لانے کے مترادف ہو؟ یہ تو ان بچوں کی اموات ہیں جنہیں اچھی خوراک کی مسلسل رسد سے بچا سکتا ہے۔ سیلاب زدہ علاقوں میں پہلے ہی غربت بہت ہے۔ وہاں مائیں غذائی قلت کا شکار ہیں۔ سیلاب نے تو جیسے جینا ہی دوبھر کر دیا ہو۔ ماں کمزور ہے اور خون کی کمی کا شکار بھی تو دودھ کیسے بنے گا؟  بچے کو کیسے دودھ پلائے ایسی کوئی ماں؟ اس نے تو مرنا ہی ہے۔ کیسا اندھیر ہے یہ!

ہر طرف کم وزن اور بیمار بچے جیسے سوال کرتے نظر آتے ہیں کہ کیا اچھی خوراک ان کا حق نہیں؟ جسمانی کمزوری قوت مدافعت کی کمزوری کا بھی سبب بنتی ہے۔

بیماریوں کے سیلاب میں گھرے بچے

سیلاب تو گزر گیا مگر بچے اب ایک نئے سیلاب میں گھر گئے ہیں اور جانیں گنوا رہے ہیں۔ بے قابو پانی سے لڑتے لڑتے تھکے ہارے بچے جو زندہ بچ گئے ہیں وہ اب بیماریوں کے غول میں پھنس گئے ہیں۔

آلودہ پانی اور ہوا ان بچوں کو پیٹ اور تنفس کی مختلف بیماریوں میں ڈبو رہی ہے۔ ان علاقوں میں سب سے عام وبا گیسٹرو ہےجس سے بڑوں کے ساتھ ساتھ بچے سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔

کئی بچوں نے اپنے ماں باپ اور گھر کھو دیئے تو وہ دماغی صدمے کی کیفیت میں ہیں۔ بے گھر ہو جانے والے خاندان اپنے بچوں سمیت سڑکوں کے کنارے پڑے ہیں۔ چاروں طرف کھڑے پانی کے اندر سے سانپ اور بچھو وغیرہ نکل کر بھی بچوں اور بڑوں کو کاٹ رہے ہیں۔ جبکہ مچھروں اور مکھیوں کی بہتات سے ڈینگی جیسا جان لیوا مرض اور دوسری بیپاریاں بچوں پر حملہ آور ہیں۔

استحصال

بچے ناسمجھ اور معصوم ہوتے ہیں۔ وہ ہر کسی پر آسانی سے بھروسہ کر لیتے ہیں۔ ان کی اسی معصومیت اور بھروسے کی عادت کا جرائم پیشہ لوگ فائدہ اٹھاتے ہیں۔ ایسے حالات میں کہ جب سر پر چھت نہ ہو، کسی بڑے کا سایہ نہ ہو، کھانے کو روٹی ، پینے کو پانی اور پہننے کو کپڑوں کی جگہ چیتھڑے ہی بچیں تو بچوں کا ورغلانا اور بھی آسان ہو جاتا ہے۔

سیلاب میں ماں باپ کھو دینے والے بچے ہر طرح کے استحصال کا آسان شکار ہوتے ہیں۔

جرائم پیشہ گروہ انہیں کھانے پینے کی اشیاء دے کے بہلا پھسلا کر ساتھ لے جاتے ہیں۔ کسی کو بھیک مانگنے والے گروہوں کو بیچ دیا جاتا ہے، کوئی بچوں سے مزدوری کرانے والے گروہون کو پہنچا دیئے جاتے ہیں اور کئی کا جسمانی استحصال بھی کیا جاتا ہے۔

کمزور صحت، زندگی کے عدم تحفظ سمیت عمومی عدم استحکام، تعلیم سے محرومی کے ساتھ اب موسمیاتی تبدیلی بچوں کو نگلنے کے لئے اپنا منہ پھاڑے کھڑی ہے۔

جیسے جیسے وقت گزرتا جا رہا ہے ویسے ویسے بچوں کی اموات کی تعداد میں بھی تشویشناک اضافہ ہو رہا ہے۔

سیلاب کی وجہ سے اب بھی کئی علاقوں کا زمینی رابطہ بحال نہیں ہو سکا۔ ان علاقوں میں یہ بچے ایسی موت کا ایندھن تیزی سے بن رہے ہیں جسے بہ آسانی ٹالا جا سکتا ہے۔

سب سے ننھے تابوت ہی سب سے بھاری ہوتے ہیں۔

مجھے ایسے لگتا ہے کہ بے یقینی اور غیرمحفوظ مستقبل کا شکار سیلاب زدہ بچوں کی آنکھیں جیسے سوال کر رہی ہوں کہ اب موسمیاتی تبدیلی کی قیمت بھی ہمیں ہی چکانی پڑے گی؟

 مہرین خالد ضلع بنوں سے تعلق رکھتی ہیں اور ٹی این این کے ساتھ بلاگر اور رپورٹر کی حیثیت سے منسلک ہیں۔

 (نوٹ: سیلاب کی صورتحال پر ٹی این این کی خصوصی بلاگ سیریز)

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button