سیلاب سرکش حکمران خودغرض
سعدیہ بی بی
اس وقت میں اپنے گھر، اپنی جنت اور اپنے آشیانے کی آغوش میں آرام سے بیٹھی پاکستان میں خوفناک تباہی پھیلانے والے سیلاب کی کتھا لکھ رہی ہوں۔
مگر انہی لمحوں میں لاکھوں متاثرہ لوگ اپنے گھر سے بے گھر، بے یارو مددگار سڑکوں یا خیموں میں پڑے آسمان کو تک رہے ہیں۔ وہ خدا سے شاید یہ دعا مانگ رہے ہیں کہ ان حکمرانوں کے دلوں میں وہی عاجزی و انکساری ڈال دے جس کا مظاہرہ وہ ووٹ مانگنے کے لئے آتے وقت کرتے ہیں۔ اس وقت تو وعدوں اور نوٹوں کی ٹوکری بھرے ان کے پاس چکر پر چکر ہی کاٹتے ہیں۔ انہیں اس خواب غفلت سے جگا دے۔
غیرملکی امداد کی چمک سے خیرہ بے حس حکمرانوں کی بند آنکھیں
مجھے تو لگتا ہے کہ ایسی خوفناک قدرتی آفتیں بھی ان خودغرض حکمرانوں کے سامنے گھٹنے ٹیک دیتی ہیں، کیونکہ وہ ان کے ضمیر کو جگانے میں ناکام ہو جاتی ہیں۔ یا پھر وہ ان آفتوں کے ساتھ جڑی غیرملکی امداد کے سہانے خوابوں میں مگن ہوتے ہیں۔
ویسے ان مواقعوں پر جاگتی آنکھوں سے وہ ایک کام بڑی جانفشانی سے کرتے ہیں یعنی بیرون ملک خیراتی دورے۔ جتنے زیادہ دورے اتنی زیادہ امداد، اتنا زیادہ کمیشن، اتنا ہی زیادہ مال۔
چلیں اگر سیلاب زدگان کے نام پر خیرات اکٹھی کرنے بیرون ملک جاتے بھی ہیں تو وہ کہاں خرچ ہو رہی ہے؟ کیوں متاثرہ لوگوں تک نہیں پہنچ پا رہی؟
میں بتاتی ہوں کہ وہ خیرات کہاں جا رہی ہے، ان خودغرض حکمرانوں کی جیبوں میں۔ میں دعوے سے کہتی ہوں کہ کچھ عرصے بعد یہ امدادی رقوم کسی کسی نہ کسی وزیر یا مشیر کے گھر سے کروڑوں کے حساب سے برآمد ہو گی۔
بیرون ملک کروڑوں اربوں کی پراپرٹیوں کے مالک ہو کر باہر ملک سے کیوں خیرات اکٹھی کر رہے ہیں، کیا وہ اثاثے اس ملک سے بھی زیادہ یا اپنے لوگوں سے بھی زیادہ قیمتی ہیں جو ہر روز اپنی جانیں گنوا رہے ہیں؟
سندھ دریا کی بپھری موجیں یا آہ و بکا؟
جیسے جیسے سیلاب سے جڑے نقصانات کے اعداد و شمار سامنے آتے گئے تو مجھے پتہ چلا کہ میرا سندھ صوبہ سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے۔ پورے ملک میں سیلاب سے مرنے والوں میں آدھی تعداد سندھ باسیوں کی ہے۔
جب سوشل میڈیا اور ٹی وی دیکھا تو پتہ چلا کہ حد نگاہ تو ختم ہو جائے مگر پانی کی کوئی حد نہ دِکھی۔ یوں لگا کہ دریا حکمرانوں کی بے حسی اور نااہلی پر برسر احتجاج ہو۔
کراچی سندھ کا دارالحکومت اور ملک کا معاشی انجن ہے۔ بارشوں نے پورے ملک کو دان کرنے والے شہر میں وہ تباہی مچائی کہ اللہ کی امان! جگہ جگہ ٹوٹی سڑکیں، ابلتے گٹر اور نالے، گندگی کے ڈھیر کے ڈھیر۔ مگر کیا یہ تباہی بارشوں نے مچائی تھی؟ جی نہیں! یہ سب اناسانی آفتیں ہیں، حکمرانوں کی کرپشن اور نااہلی کہ وہ انفراسٹرکچر کی بحالی کے لئے ملنے والے فنڈز بھوکے شیر کی طرح کھا جاتے ہیں۔
اور اب تو پورا سندھ ہی ڈوب گیا، بلوچستان بھی، پنجاب بھی اور میرا خیبر پختونخوا بھی۔
روٹی، کپڑا اور مکان اور سیایسی جلسے
کھلے آسمان تلے پڑی عوام کو مدد چاہیے مگر حکمران تو اپنے گھروں میں بیٹھے ہیں اور جب بات ووٹ کی اور جلسوں کی ہوتی ہے تو تب ان کو عوام یاد آتی ہے۔ تب یہ پرزور نعرے لگاتے ہیں کہ روٹی کپڑا مکان دینے آ رہے ہیں۔ آج اسی روٹی، کپڑے اور مکان کے لیے لوگ ترس گئے ہیں، انھوں نے اپنے ہاتھ پھیلا رکھے ہیں اور ان کو دینے والا کوئی نہیں۔
عمران خان صاحب! مانتے ہیں کہ عوام آپ کو بہت پسند کرتی ہے اور ہم بھی کرتے ہیں۔ مگر آپ کو تو ابھی بھی صرف اپنی سیاست چمکانی ہے، خدا کو مانیں، یہ کوئی وقت ہے سیاسی جلسے کرنے کا؟ یہ وقت سیلاب سے متاثرہ لوگوں کے رستے زخموں پر محبت، مدد، احساس اور شفقت کا مرہم رکھنے کا ہے۔
آپ کے سیاسی جلسے لوگوں کی زندگیوں سے زیادہ قیمتی ہیں؟ اگر آپ جلسوں کے بجائے متاثرہ علاقوں کا دورہ کریں تو وہ زیادہ بہتر ہو گا۔ جو رقم آپ اپنے جلسوں پر لگاتے ہیں اگر وہی رقم آپ ان لوگوں پر لگاٸیں تو زیادہ اچھا ہو گا۔ لوگ سیلاب کے باوجود آپ کی محبت میں جلسوں میں آتے ہیں تو کیا آپ کا فرض نہیں ہے کہ جلسوں کے بجائے ان سے ملنے چلے جائیں؟
آسمان سے برستے اور زمین پر بہتے سیلابی ریلے نے دیکھتے ہی دیکھتے پاکستان میں نطام زندگی درہم برہم کر دیا ہے۔ کوئی مدد کو نہیں آ رہا۔ جو آتا ہے اسے امداد دینے سے زیادہ تصویروں کی پڑی ہوتی ہے۔ خدارا! اپنے ہم وطنوں کی مدد کریں تاکہ ان کی زندگیاں بچ سکیں۔
میری تو سمجھ میں نہیں آ رہا کہ ان حکمرانوں کو خواب غفلت سے کیسے جگایا جائے، کیا آپ کے پاس کوئی تدبیر ہے؟
سعدیہ بی بی طالب علم ہیں اور مخلتف سماجی موضوعات پر بلاگ لکھتی رہتی ہیں۔
(نوٹ: سیلاب کی صورتحال پر ٹی این این کی خصوصی بلاگ سیریز)