حدیبیہ افتخار
قدرت آفات کی صورت میں سب سے زیادہ متاثرعورتیں اور بچے ہوتے ہیں۔ جب بھی کوئی قدرتی آفت آتی ہے تومجھے یہ مسئلہ سب سے زیادہ خبروں کا حصہ بنتا نظر آتا ہے۔ حالیہ سیلاب نے بھی خواتین کو بہت متاثر کیا۔ اس پر بھی رپورٹ پر رپورٹ لکھی جارہی ہے۔ مگر ان کے ساتھ ایسا ہوتا کیا ہے جو سب سے الگ ہے؟
ماہواری یا حیض
عورتوں کی تولیدی صحت سے براہ راست جڑا ماہواری کا عمل کسی بھی آفت کے آنے کے بعد بھی نہیں رکتا۔
عورت کہیں بھی جائے، کسی بھی مشکل کا شکار ہو لیکن یہ ایک ایسا عمل ہے جوانتظارنہیں کرتا بلکہ ہرماہ اپنے وقت پر نازل ہوتا ہے۔ بلکہ جب ذہنی دباؤ بڑھ جائے تو پھر اس کا سائیکل بھی بگڑ جاتا ہے۔ ایسے میں وقت کا تعین بھی مشکل ہو جاتا ہے۔ میں نے جب متاثرہ خواتین اور سیلاب میں ان کو درپیش مسائل کے بارے میں جاننے کے لئے تحقیق کی توسب سے پہلے سوشل میڈیا پرایک عجیب ہی بحث کا سامنا کرنا پڑا۔ حسب معمول عورتوں کی صحت کے بارے میں عجیب وغریب بحث مرد کر رہے تھے۔
اس بحث کا محور دراصل سیلاب میں گھری بے یارو مددگار عورتوں کو سینیٹری نیپکنزکی فراہمی تھا۔ صاحبان کا موقف اسے غیر ضروری ثابت کررہا تھا(حسب معمول عورتوں سے جڑی کوئی بھی بات ان کے لئے غیر ضروری ہی ٹہری)۔
ایک نے توحیض کو داڑھی بڑھنے سے تشبیہہ دے دی۔ کہا عورتوں کو وہاں پیڈز دینا ایسا ہے جیسے مردوں کو اس وقت شیونگ مشین تھما دی جائے۔ بے عقلی اور احساس سے عاری اس سوچ کے بارے میں آپ کیا کہیں گے؟
گویا مردوں کو بغیر داڑھی بنائے اگر کچھ عرصہ رہنا پڑے تو یہ عورتوں کی صحت کے مسئلے کے مترادف کیسے ہے؟
یہاں میں ایک ایسا محاورہ استعمال کروں گی جومردوں نے ہی عورتوں کے لئے ایجاد کیا ہے، مگر میں اسے اس کی اصل شکل میں استعمال کروں گی۔ وہ محاورہ ہے ،،عورت ہی عورت کی دشمن ہے ،،۔ آگے پڑھائے اور جانئے اس محاورے کی اصل شکل۔۔۔۔۔
عورت ہی عورت کے کام آتی ہے!
سیلاب سے متاثرہ خواتین کی ماہواری جیسے مشکل مسئلے کے حل کے لئے مختلف سماجی تنظیموں سے وابستہ خواتین نے بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہی ہیں۔
میں نے ایسی ہی ایک بھلی لڑکی فاطمہ نازش سے بات کی۔ وہ ایک سوشل ایکٹوسٹ ہے۔ خاتون ہونے کے ناطے سیلاب زدہ علاقوں کی خواتین کے لئے سینیٹری نیپکن کی فراہمی میں جو کچھ اس سے ممکن ہو رہا ہے وہ کر رہی ہے۔
بات چیت کے دوران بتا یا کہ اس سلسلے میں انہوں نے کئی اداروں اور سماجی تنظیموں سے بات کی اور ان کو اس بات پر آمادہ کیا کہ متاثرین سیلاب کو خوراک کی اشیاء کے ساتھ ساتھ خواتین کے لئے سینیٹری پیڈز بھی وقت کی اہم ضرورت ہے۔
فاطمہ نے بتایا کہ ہزاروں کی تعداد میں سینٹری کٹس جس میں سینیٹری نیپکنز، زیر جامے،میڈیکیٹڈ صابن، تولیے، اور ٹوتھ برش سمیت ٹوتھ پیسٹ شامل ہیں، سیلاب سے متاثرہ اضلاع نوشہرہ، چار سدہ، اور ڈی آئی خان میں تقسیم کئے ہیں۔ جبکہ اب بھی یہ عمل جاری و ساری ہے۔
سینٹری پیڈز کی بات کرنا مردوں کی غیرت کو للکارنا ہے
مجھے سمجھ نہیں آتا کہ عورت کو کیا سمجھا جائے ۔ "انسان” یا پھر "مرد کی غیرت” کیونکہ جہاں لفظ عورت یا اس کو درپیش مسئلے کا ذکر ہو تو مرد کی ویسے سوئی ہوئی غیرت اچانک پھڑک کر جاگ اٹھتی ہے۔
فاطمہ نازش کہتی ہے کہ اس نے سیلاب متاثرین کے لئے سنیٹری بیڈز جمع کرنے کی مہم کا آغاز سوشل میڈیا سے کیا ان پوسٹس پر سب سے شدید ردعمل مردوں کی طرف سے سامنے آیا۔۔۔۔حسب معمول۔
بعض نے اس مسئلے کے سر عام زکر پر اعتراض کیا تو کچھ مردوں غیرت کا معاملہ بن گیا۔۔۔۔ایک بار پھر!
اب "زنانہ صحت” کے عورتوں سے زیادہ مردانہ ماہرین سے کوئی پوچھے کہ سیلاب زدہ علاقوں میں جب ماہواری کے دنوں میں پیڈز کی عدم دستیابی پرعورتیں خون سے بھرے کپڑوں کے ساتھ گھومیں گی تو زنانہ صحت کے یہی ماہرین اسے "فحاشی” قرار دیں گے۔ سیلاب تو سب کچھہ ہی بہا لے گیا۔ ان عورتتوں کو تو کوئی گندے کپڑے بھی میسر نہیں۔ فاطمہ نے بتایا کہ ان تمام باتوں کو خاطر میں نہ لا کر انہوں نے اپنا کام جاری رکھا جس میں وہ کامیاب رہی۔
اب یہ پیڈز کس چڑیا کا نام ہے؟
ان عورتوں تک سینٹری پیڈز تو پہنچادیئے گئے، مگر اب ایک اور اہم سوال پیدا ہو گیا کہ وہ اسے استعمال کیسے کریں گی۔
دیہی علاقوں میں عورتیں ماہواری کے دنوں میں پرانا کپڑا استعمال کرتی ہیں۔ ظاہر ہے کہ امدادی کیمپوں میں زیادہ تعداد ان لوگوں کی ہوتی ہے جن کا گھر بار سب بہہ چکا ہوتا ہے۔ ان خواتین نے پہلے پیڈز استعمال نہیں کیے ہوتے۔
فاطمہ نے بتایا کہ انہوں نے نا صرف خواتین کو پیڈز مہیا کئے بلکہ ان کو استعمال کا طریقہ بھی سکھایا جس پروہ خواتین ان کی ممنون تھیں۔
حمل کا عمل
اقوام متحدہ کے پاپولیشن فنڈ ( یو این ایف پی اے) رپورٹ کے مطابق پاکستان میں سیلاب سے پانچ لاکھ سے زائد حاملہ خواتین متاثر ہوئی ہیں جس میں 73 ہزار حاملہ خواتین کے ہاں جلد ہی پیدائش متوقع ہے۔
مانسہرہ سے تعلق رکھنے والی گائناکالوجسٹ ڈاکٹر غزالہ شمس چارسدہ میں ریلیف کیمپ میں خواتین کو صحت سہولیات فراہم کررہی ہیں۔
ان کے ساتھ گفتگو میں پتہ چلا کہ سیلاب سے متاثرہ خواتین میں 80 فیصد وہ ہیں جو حمل کے دوران ہسپتال کے بجائے گاؤں میں دائیوں سے کام کروانے کو ترجیح دیتی ہیں مگر سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں اب ان خواتین کو یہ سہولت بھی میسر نہیں ہے تو اس وقت سب سے بڑا خطرہ محفوظ ڈیلیوری کا ممکن نہ ہونا ہے۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ سیلاب کی وجہ سے گاوں کے گاوں ڈوب چکے ہیں، آبادی یا تو نقل مکانی کر چکی ہے یا پھر اموات کا شکار ہوگئی ہے،دائیاں ناپید ہیں، خود حاملہ خواتین کیمپوں میں رہ رہی ہیں، طبی سہولیات والے مرکز بھی پانی میں ڈوب چکے ہیں۔
حاملہ عورتوں کو بچائیں
حاملہ خواتین کی بڑی تعداد غذائیت کی کمی کا شکار ہوتی ہیں۔ حمل کے دوران اینیمیا یعنی کی خون کی کمی ہونا بھی عام ہوتا ہے۔ ڈاکٹرغزالہ سے ہوئی گفتگو میں یہ بھی پتہ چلا کہ ان دنوں میں خواتین کا ایچ بی لیول یعنی ہیموگلوبن بھی کافی کم ہوتا ہے جبکہ زہنی دبائو کا شکار بھی ہوتی ہیں۔ اگر ان کی صحت کا بروقت تحفظ ممکن نہ ہوا تو حمل ضائع ہونے کا خدشہ ہوتا ہے۔
ڈاکٹر غزالہ نے بتایا کہ سیلاب کی وجہ سے مختلف بیماریاں بھی پھیلتی ہیں۔ عام لوگوں کی نسبت حاملہ خواتین کے متاثر ہونے کا زیادہ خطرہ ہوتا ہے,حاملہ خواتین کو خوارک کے ساتھ صفائی اور دیگر ضروریات کی فراہمی بھی ضروری ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ان علاقوں میں حاملہ خواتین کو آئرن سپلیمنٹس، فولک ایسڈ، کیلشیم اور وٹامن ڈی کی دوائیں بھی فراہم کی جائیں۔
کیا سیلاب زدہ علاقوں میں خواتین کی صحت کی اہمیت کے بارے میں آگاہی مہم شروع کرنے سے کوئی فرق پڑے گا؟
حدیبیہ افتخار ایک فیچر رائٹر اور بلاگر ہیں۔
(نوٹ: سیلاب کی صورتحال پر ٹی این این کی خصوصی بلاگ سیریز)