فاکہہ قمر
”پرایا دھن۔” آئے روز ہم روزمرہ زندگی میں یہ الفاظ سنتے اور بولتے ہیں جن کا بنیادی معنی و مفہوم یہی ہوتا ہے کہ: "ایسی چیز جو وقتی طور پر آپ کے پاس موجود تو ہو لیکن اس کی ملکیت کسی اور کے پاس ہو۔” عموماً یہ لفظ لڑکیوں کے لئے استعمال کیا جاتا ہے کیونکہ ماں باپ یہ تصور کرتے ہیں کہ ہم اپنی بیٹیوں کو پالتے، پوستے، پڑھاتے اور بڑا کرتے ہیں اور پھر ایک وقت آتا ہے کہ انہیں کوئی اور لے جاتا ہے لیکن کیا کبھی کسی نے یہ تصور کیا ہے کہ ہم اپنی شناخت کو ہی پرایا بنا بیٹھے ہیں؟
جی ہاں! ہماری زبان جس کو ہم "قومی زبان” کہتے ہیں وہ اردو ہے لیکن افسوس کہ ہم اس کے ساتھ غیروں والا سلوک روا رکھتے ہوئے اسے پرایا دھن کی مانند تصور کرتے ہیں۔ ہم یہ کہتے ہیں کہ "اردو ہماری قومی زبان ہے” لیکن ہم اس بات کو دل سے تسلیم کرنے سے انکاری ہیں۔ اردو ادب کی تاریخ کو اگر کھنگالا جائے تو متعدد شاعر بچارے ہمیں یہ احساس دلاتے ہی دنیا سے چلے گئے کہ اپنی مادری زبان کو دل سے مانو اور استعمال کرو۔ یہاں پر معروف شاعر داغ دہلوی نے حالات کے تناظر میں کیا خوب کہا ہے کہ:
نہیں کھیل اے داغ یاروں سے کہہ دو
کہ آتی ہے اردو زباں آتے آتے
دنیا میں سب سے زیادہ آسان اور جامع زبان اردو ہی ہے۔ بیشتر ممالک کے لوگ اس زبان کو باآسانی سیکھتے اور بولتے ہیں جبکہ ہم اپنی ہی نعمت سے محروم ہو کر بیٹھے ہیں۔ ہمارے پاس ایک مہذب، شائستہ زبان موجود ہے جس میں ہر عمر اور رشتے کے لحاظ سے احترام کے طور پر نہایت مناسب اور معقول الفاظ کا ذخیرہ موجود ہے لیکن ہمیں اس کی قدر نہیں ہے۔ دور کے ڈھول سہانے کی مانند ہم انگریزی زبان کو اپنی مادری زبان پر فوقیت دیتے ہیں۔ انگریز ظالم نے ہمارے نظام اور سوچ کو "انگریزی زبان” کے گرد محیط کر کے رکھ دیا ہے۔
ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ہم انگریزی زبان کا استعمال کریں گے تو زیادہ پڑھے لکھے اور مہذب نظر آئیں گے جبکہ درحقیقت ہم اپنی زبان کو چھوڑ کر ایک پرائی زبان کو سیکھنے کی تگ و دو میں نہ ادھر کے ہیں نہ ادھر کے۔ بڑے سیانے لوگوں نے اپنی زندگی کے مشاہدے کو ایک محاورے میں سمو کر رکھ دیا ہے جو کہ ہم پر مکمل طور پر پورا اترتا ہے۔
"کوا چلا ہنس کی چال اور اپنی بھی بھول گیا۔” یہ محاورہ شاید ایسے ہی کسی وقت اور صورت حال کے لئے وجود میں آیا تھا۔ یہ انتہائی افسوس ناک عمل ہے کہ غیرممالک کے لوگ ہماری زبان کی قدر کرتے ہوئے اسے سیکھنے اور سمجھنے کے درپے ہیں اور ہم ہیں کہ ہمیں اپنی ہی چیز کی قدر نہیں ہے۔ میری اس بات سے اکثر لوگ اختلاف کریں گے اور کہیں گے کہ اپنی زبان کے علاوہ دیگر زبانیں سیکھنا، بولنا جرم نہیں ہے۔ ایسے لوگوں کو میں بس اتنا ہی کہوں گی کہ جب باقی ممالک کے لوگ ہماری زبان اردو بولتے ہیں تو کیا وہ اپنی مادری زبان بولنا چھوڑ دیتے ہیں؟ کیا وہ اپنی زبان کے اوپر کسی اور زبان کو فوقیت دیتے ہیں؟ آپ کو آپ کا جواب مل گیا ہو گا۔
ہم کامیابی اور ترقی کی ضمانت انگریزی زبان کو سمجھتے ہیں اور اسے ہی اپنا اوڑھنا اور بچھونا پسند کرتے ہیں شاید یہ انگریز کی مکروہ چال ہی ہے جو ہمارے اذہان پر حاوی ہو گئی ہے۔ کسی بھی ملک میں ترقی کے لیے اس کی اپنی زبان زیادہ اہمیت کی حامل ہوتی ہے بہ نسبت کسی اور زبان کے۔
جتنے ترقی یافتہ ممالک ہیں اگر ان کا ایک جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے اپنے دفتری اور ترقی یافتہ کاموں میں ہمیشہ اپنی زبان کو سرفہرست رکھا ہے اور باقی دیگر زبانوں کو شوق، مجبوراً یا بوقت ضرورت استعمال کے لئے سیکھا ہے۔ ہمارے ہاں اس سے الٹ ہوتا ہے۔ ہم اپنے بچوں کو بچپن سے ہی اردو سکھانے کی بجائے انگریزی زبان کی تعلیم و تربیت دیتے ہیں جبکہ ان کے ارد گرد کا ماحول اس سے یکسر مختلف ہوتا ہے۔ ایسی صورت میں بچہ دوراہے پر کھڑا ہو جاتا ہے۔ نہ وہ صحیح معنوں میں انگریزی زبان کی شدھ بدھ حاصل کر سکتا ہے نہ وہ اپنی اصل زبان کی الف، ب سے واقف ہوتا ہے بلکہ ان دونوں صورتوں کے درمیان میں ایک عجیب و غریب امتزاج پیدا ہو جاتا ہے اور پھر پاکستانی مشہور اداکارہ "میرا” جیسی شخصیات جنم لیتی ہیں اور اپنے ملک اور زبان کی دھجیاں اڑاتے ہوئے پوری دنیا میں شرمندگی کا باعث بن کر رہ جاتی ہیں۔
خدارا! اپنے اصل کو پہچانیں۔ جو چیز آپ کی ہے اس کو ہر چیز سے زیادہ افضل اور اہمیت دیں۔ ہماری رگوں میں ہمارے باپ دادا کا "اردو زبان” کا خون دوڑتا ہے۔ ہم چاہے کچھ بھی کر لیں اپنے اصل سے فرار اختیار نہیں کر سکتے ہیں۔ بس یہ شفاف آئینے پر دھول جمی ہے جس کو صاف کرنے کی ضرورت ہے۔
اپنی زبان سے پیار کریں۔ اس کو سیکھیں اور سکھائیں اور اس کی ترویج و ترقی میں جس حد تک ممکن ہو اپنا معاون کردار ادا کریں۔ آپ دنیا کے چاہے کسی بھی کونے میں چلے جائیں، کوئی بھی شہریت اختیار کر لیں رہیں گے آپ پاکستانی ہی اور آپ کی اصل پہچان آپ کی زبان "اردو” سے ہی منسوب ہو گی۔